اَخلاق کب درست ہوتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کے باطن اور روح سے متعلق بھی کچھ احکام رکھے ہیں۔ کچھ صفات پیدا کرنیکا حکم دیا ہے اور کچھ صفات سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ اخلاق انہی باطنی کیفیات اور روح کی صفات کا نام ہے کہ انسان کا باطن درست ہو جائے‘ اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں اور اخلاق رذیلہ دور ہو جائیں اور انسان کا باطن اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھل جائے۔
اخلاق کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟ مثلاً غصہ انسان کے باطن کی ایک صفت ہے جب دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے تو بعض اوقات اس کا مظاہرہ ہاتھ پائوں سے ہوتا ہے۔ کبھی چہرہ سرخ ہوگیا‘ رگیں تن گئیں‘ زبان بے قابو ہو کر اول فول بکنے لگی یہ غصہ کا نتیجہ ہے لیکن اصل غصہ اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔
غصہ ایسی چیز ہے کہ بے شمار باطنی رذائل کی بنیاد اور جڑ ہے اس کی وجہ سے بہت سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو غصہ اس مقصد کے لیے دیا ہے کہ انسان اپنا‘ اپنی جان کا‘ اپنی آبرو کا اور اپنے دین کا دفاع کر سکے۔
اگر کوئی شخص پستول تانے کھڑا ہے اور اس کی جان لینا چاہتا ہے اور ان صاحب کو غصہ آتا ہی نہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بیمار ہے یہ ایسا موقع تھا کہ غصہ آنا چاہیے تھا اگر نہیں آ رہا تو یہ ایک بیماری ہے۔ اور اگر غصہ حد اعتدال سے زیادہ ہے تو یہ بھی بیماری ہے ۔
مثلاً ایک تھپڑ مارنے سے کام چل سکتا تھا لیکن یہ غصہ میں مارے چلا جا رہا ہے تو یہ غصہ حد اعتدال سے زیادہ ہے اور گناہ ہے۔ انسان کے باطن کے جتنے بھی اخلاق ہیں ان سب کا یہی حال ہے کہ اپنی ذات میں وہ بُرے نہیں ہوتے۔ جب تک کہ وہ حد اعتدال میں رہیں اس وقت تک وہ صحیح ہیں لیکن اگر اعتدال سے کم ہوگئے تو وہ بھی بیماری اور اعتدال سے زیادہ ہوگئے تو بھی بیماری۔
اصلاح نفس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ان اخلاق کو اعتدال پر رکھا جائے کہ نہ کم ہوں نہ زیادہ ہوں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

