دیواریں یا نوٹس بورڈ؟
ہمارے معاشرے میں دیواروں پر اشتہارات ، نعرے اور اعلانات لکھنے یا چسپاں کرنے کا رواج اس قدر تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے کہ اسے دیکھ کر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میں نے دنیا کے تقریباً چالیس ملک دیکھے ہیں۔ لیکن کہیں دیواری تحریروں کا یہ طوفان دیکھنے میں نہیں آیا جو ہمارے ملک میں تیزی سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ملک بھر میں شاید ہی کچھ خوش قسمت دیواریں ایسی ہوں جہاں کوئی تحریر درج نہ ہو۔ ورنہ تقریباً ہر قابل ذکر دیوار پر کچھ نہ کچھ لکھا یا چپکا ہوا ضرور ملتا ہے۔ حکیموں کے اشتہارات ،سیاسی اور مذہبی جلسوں کے اعلانات‘ انتخابی منشوروں کے اہم نکات‘ سیاسی قائدین کے دعوے اوروعدے‘ غرض دنیا بھر کی باتیں دیواروں پر درج ہوتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ملک کی دیواریں اپنے مکینوں کو تحفظ دینے کیلئے نہیں بلکہ آزادی تحریر کا مظاہرہ کرنے کیلئے بنی ہیں اور ہر دیوار ایک ایسا مفت نوٹس بورڈ ہے جسکے استعمال کی نہ کوئی فیس ہے نہ اس کیلئے کسی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ اس پر سنسر کی کوئی پابندی ہے۔ بلکہ لوگوں کو صلائے عام ہے کہ وہ جب چاہیں‘ جو چاہیں اور جتنی بھدی تحریر میں چاہیں اس مفت نوٹس بورڈ پر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے لکھ جائیں ۔
اس بات کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے کہ یہ عمل دینی اعتبار سے ایک بڑا گناہ ہے جو چوری کے گناہ میں داخل ہے۔ ظاہر ہے کہ اکثر و بیشتر یہ تحریریں ایسی دیواروں پر لکھی جاتی ہیں جو لکھنے والے کی ملکیت میں نہیں ہوتیں اور نہ دیوار کا مالک اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اسکی عمارت پر یہ مینا کاری کی جائے۔ لہٰذا عموماً یہ تحریریں مالک کی مرضی کے بغیر‘ بلکہ اسکی ناراضی کے باوجود لکھی جاتی ہیں ۔ اس طرح دوسرے کی ملکیت کو ناجائز طور پر اپنے کام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے کی چیز کو اسکی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنیکی سخت ممانعت فرمائی ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

