قرآن کریم کی تفسیر میں احتیاط ضروری ہے
قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں۔ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں۔اور عبرت و موعظت کے مضامین بیان کئے گئے ہیں۔اس قسم کی آیتیں بلاشبہ آسان ہیں اور جو شخص عربی زبان سے واقف ہو وہ انہیں سمجھ کر نصیحت حاصل کرسکتا ہے۔اس کے برخلاف دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام و قوانین، عقائد اورعلمی مضامین پرمشتمل ہیں۔ اس قسم کی آیتوں کا کماحقہ۔سمجھنا اور ان سے احکام و مسائل معلوم کرنا ہر شخص کا کام نہیں جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اور پختگی حاصل نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اور عربی سمجھنے کیلئے انہیں کہیں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے۔
اب ظاہر ہے کہ جب صحابہ کرامؓ کو عربی زبان کی مہارت اور نزول وحی کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود ’’عالم قرآن‘‘ بننے کیلئے باقاعدہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ تو نزول قرآن کے سینکڑوں سال بعد عربی کی معمولی شدبد پیدا کرکے یا صرف ترجمے دیکھ کر مفسر قرآن بننے کا دعویٰ کتنی بڑی جسارت اورعلم ودین کے ساتھ کیسا افسوسناک مذاق ہے؟ ایسے لوگوں کو جو اس جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ:۔
’’ جو شخص قرآن کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘۔ اورفرمایا ’’جوشخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی‘‘ (ابو دائود و نسائی)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

