حج کا اصل لطف جوانی میں ہے
حج کا اصل لطف درحقیقت جوانی ہی میں ہے، اول تو اس لئے کہ حج میں جسمانی محنت اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اور حج کے افعال اسی وقت نشاط اور ذوق و شوق کے ساتھ انجام دیئے جا سکتے ہیں جب انسان کے قوی اچھے ہوں اور وہ اطمینان کے ساتھ یہ محنت برداشت کرسکتا ہو۔۔۔ورنہ بڑھاپے میں اگرچہ انسان جوں توں کرکے حج کرلیتا ہے، لیکن کتنے کام ایسے ہیں جنہیں نشاط چستی اور حضور ِ قلب کے ساتھ انجام دینے کی حسرت ہی دل میں رہ جاتی ہے‘ دوسرے اس لئے کہ حج اگر اخلاص اور نیک نیتی سے صحیح طور پر انجام دیا جائے تو تجربہ یہ ہے کہ وہ انسان کے دل میں ایک انقلاب ضرور لے کر آتا ہے۔۔۔ اس سے انسان کے دل میں نرمی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے جو بالآخر اسے گناہوں۔۔۔جرائم اور بدعنوانیوں سے روکتی ہے، قلب وذہن کی اس تبدیلی کی سب سے زیادہ ضرورت انسان کوجوانی میں ہوتی ہے۔۔۔
یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے کہ جب تک تمام اولاد کی شادیاں نہ ہو جائیں۔اس وقت تک حج نہیں کرنا چاہئے، یہ خیال بھی سراسر غلط ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ حج کی فرضیت کا اولاد کی شادیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔جس شخص کو بھی شرعی معیار کے مطابق استطاعت ہو۔اسکے ذمے حج فرض ہو جاتا ہے، خواہ اولاد کی شادیاں ہوئی ہوں ، یا نہ ہوئی ہوں۔۔
دوسری عبادتوں یعنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج بھی ایک ایسا فریضہ ہے جو ہر شخص پر انفرادی طور سے عائد ہوتا ہے۔ خواہ کسی دوسرے نے حج کیا ہو،یا نہ کیاہو۔اگر گھر کے کسی چھوٹے فرد کے پاس حج کی استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے، اگر بڑے کے پاس استطاعت نہ ہو یا استطاعت کے باوجود وہ حج نہ کر رہا ہو تو نہ اس سے چھوٹے کا فریضہ ساقط ہوتاہے، نہ اسے مؤخرکرنے کاکوئی جواز پیداہوتا ہے۔
بہت سے گھرانوں میں یہ صورت دیکھنے میں آئی کہ باپ صاحب ِ استطاعت نہیں ہے مگر بیٹا صاحب ِ استطاعت ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ سمجھتا ہے کہ پہلے میں باپ کو حج کرائوںپھر خود حج کروں، یا اس وقت کا انتظار کروں جب میں باپ کو اپنے ساتھ حج کو لے جا سکوں، یہ طرز عمل بھی درست نہیں ہے، اگرچہ باپ کو حج کرانا ایک بڑی سعادت مندی ہے۔ لیکن اس سعادت کے حصول کیلئے اپنے فریضہ کو مؤخر کرنا درست نہیں۔
دنیا میں ہر کام کیلئے کچھ ادب آداب ہیں اور تو اور کھیلوں تک کے آداب اور قواعدہ مقرر ہیں اور اب تو کھیلوں کے آداب و قواعد مستقل فن کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور کوئی شخص کھیل بھی کھیلنا چاہے تو اسے یہ قواعد سیکھنے پڑتے ہیںاور دل مانے یا نہ مانے، ان کی پابندی کرنی پڑتی ہے، حج تو پھرایک عبادت ہے، بڑی مقدس اور عظیم الشان عبادت۔ لہٰذا اس کے آداب و احکام سیکھنا اور ان کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ محض اپنی رائے کے بل پر ان قواعد و آداب میں تبدیلی کرنا اپنی محنت اور پیسے کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اگر اپنی من مانی کرنی ہے تو حج کے تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے۔
حج چونکہ تمام مسلمان اکٹھے ہو کر انجام دیتے ہیں اور حج کے موقع پر انسانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔اس لئے اس میں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے اسلام نے حج کے احکام میں اس بات کو خاص طور پر مد نظر رکھا ہے کہ کوئی شخص کسی کیلئے تکلیف کا باعث نہ بنے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

