مذاق اڑانے کے ڈر سے سنت چھوڑنا کب جائز ہے ؟ (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی سنت ایسی ہے جس کا ترک بھی جائز ہے اور اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اگر اس سنت پر عمل کیا گیا تو کچھ مسلمان جو بے فکر اور آزاد خیال ہیں، وہ اس سنت کا مذاق اڑا کر کفر وارتداد میں مبتلا ہوںگے، توایسے موقع میں اس سنت پر عمل چھوڑ دے تو یہ جائز ہے، مثلاً زمین پر بیٹھ کر کھانا سنت سے قریب تر ہے لیکن اگر آپ کسی وقت ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے چلے گئے، وہاں کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، اب آپ نے وہاں جا کر یہ سوچا کہ زمین پر بیٹھ کر کھانا سنت سے زیادہ قریب ہے ، چنانچہ وہیں پر آپ زمین پر رومال بچھا کر بیٹھ گئے تو اس صورت میں اگر اس سنت کی تو ہین اور تضحیک کا اندیشہ ہو، اور اس سے لوگوں کے کفر اور ارتداد میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ اس وقت آدمی اس سنت کو چھوڑ دےاور کرسی پر بیٹھ کر کھالے۔لیکن یہ اس وقت ہے جب اس سنت کو چھوڑنا جائز ہو، لیکن جہاں اس سنت کو چھوڑنا جائز اور مباح نہ ہو، وہاں کسی کے مذاق اڑانے کی وجہ سے اس سنت کو چھوڑنا جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ مسلمان کی بات اور ہے، کافر کی بات اور ہے، اس لئے کہ مسلمان کے اندر تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ سنت کا مذاق اڑانے کے نتیجے میں کافر ہو جائے گالیکن اگر کافروں کا مجمع ہے تو وہ پہلے سے ہی کافر ہیں، ان کے مذاق اڑانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا لہٰذا وہاں پر سنت پر عمل کو چھوڑنا درست نہیں ہو گا۔
۔(کھانے کے آداب، اصلاحی خطبات، جلد پنجم، صفحہ۲۰۹)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

