حضور صلی اللہ علیہ وسلم کااظہار عاجزی (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں وہ طریقہ پسند فرماتےجس میں عبدیت ہو، بندگی ہو، شکستگی کا اظہار ہو، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کے لئے یہ احد پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تاکہ آپ کی معاش کی تکلیف دور ہو جائے ؟ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ مجھے تو یہ پسند ہے کہ’’ اجوع یوما واشبع یوما‘‘ ایک دن کھاؤں اور ایک دن بھوکار ہوں ، جس دن کھاؤں تو آپ کا شکر ادا کروں، اور جس دن بھوکار ہوں اس دن صبر کروں اور آپ سے مانگ کر کھاؤں۔ ایک حدیث میں آتاہے کہ ’’ما خيررسول الّٰله صلى الّٰله عليه وسلم بين امرين قط الا اخذ ايسرهما” (صحیح بخاری، کتاب الادب) یعنی جب حضور اقدس صلی اللہ عیہ وسلم کو کسی معاملے میں دور استوں کا اختیار دیا جاتا ہے کہ یا تو یہ راستہ اختیار کر لیں یا یہ راستہ اختیار کر لیںتو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان میں سے آسان راستے کو اختیار فرماتے، اس لئے کہ مشکل راستہ اختیار کرنے میں اپنی بہادری کا دعویٰ ہے کہ میں بڑا بہادر ہوں کہ یہ مشکل کام انجام دے لوں گا اور آسان راستہ اختیار کرنے میں عاجزی، شکستگی اور بندگی کا اظہار ہے کہ میں تو بہت کمزور ہوں اور اس کمزوری کی وجہ سے آسان راستہ اختیار کرتا ہوں۔ لہٰذا جو کچھ کسی کو حاصل ہوا وہ بندگی اور فنائیت ہی میں حاصل ہوا ہے اور فنا ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی مرضی اور ان کی مشیت کے آگے اپنے وجود کو انسان فنا کر دے، اور جب فنا کر دیا تو سمجھو کہ سب کچھ اس فنائیت میں حاصل ہو گیا۔
۔(تواضع ،رفعت اور بلندی کا ذریعہ، اصلاحی خطبات، جلد پنجم، صفحہ ۳۳)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

