رونا صبر کے منافی نہیں ہے (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
ارشاد فرمایا کہ یہ دنیا ہے، یہاں بڑے سے بڑے حاکم ، بڑے سے بڑے سرمایہ دار ، بڑے سے بڑے دولت مند کو دیکھ لو ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کو کبھی تکلیف نہ آئی ہو۔ ان پر ایسی ایسی تکلیفیں آتی ہیں کہ وہ بعض اوقات غریبوں اور فقیروں کو نہیں آتیں۔ پیغمبروں کو تکلیفیں آئی ہیں، اولیاء اللہ کو آئی ہیں ، اللہ کے مقبول بندوں کو آئی ہیں، تکلیف سے تو یہ دنیا خالی نہیں ہو سکتی۔ کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی صورت میں ہر انسان کے پاس یہ تکلیف آئے گی، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر اس تکلیف کے بارے میں آدمی یہ یقین کرلے کہ یہ اللہ جل جلالہ کی مشیت سے آئی ہے اور میں اس کی مشیت کے بارے میں کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتا، اس کا فیصلہ برحق ہے تو اسی کا نام صبر ہے اور اگر آدمی کے دل میں صدمہ بھی ہورہا ہو ، رو بھی رہا ہو ، تکلیف بھی ہورہی ہو اور آدمی اس تکلیف کا اظہار بھی کرے تو یہ صبر کے منافی نہیں۔جب تک دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت سے کوئی شکوہ نہ ہو ، تقدیر سے کوئی شکوہ نہ ہو تو رونے کی بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں معافی ہے۔ اگر بے اختیار رونا آئے ، بے اختیار آہیں نکلیں تو کوئی حرج نہیں ، اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف کے اوپر مطلقاََ رونا حرام ہے یا ناجائز ہے یا گناہ ہے، یہ بات غلط ہے۔ اگر بے اختیار رونا آ جائے تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں۔
۔(درسِ شعب الایمان، جلد ۳، صفحہ ۲۲۷)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

