ریا (عبادات میں دکھاوے) کی حقیقت کیا ہے
ارشاد فرمایا کہ ریا اور دکھاوا اس وقت ہوتا ہے جب تمہارے دل میں مخلوق کو دکھانے کی نیت ہو، مخلوق کی خاطر عمل کرو۔ تم اس لئے عمل کررہے ہو تاکہ تم کو لوگ عبادت گزار سمجھیں، اللہ کا ذکر کرنے والا سمجھیں، اللہ تعالیٰ کا مقرب آدمی سمجھیں، اس نیت سے ذکر کررہے ہوتو بے شک ریا ہوگی۔
لیکن جب تمہاری نیت یہ نہیں ہے تو پھر لوگوں کے کہنے سے ریا کار نہیں بن جاؤ گے۔ تمہیں جو کچھ کرنا ہے اللہ کے لیے کرو۔ اسی لیے بزرگوں نے فرمایا اور یہ بات بڑی یاد رکھنے کی ہے کہ جس طرح مخلوق کی خاطر کوئی عمل کرنا ریاہے، مخلوق کو خوش کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا ریا کاری ہے ، یہ ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح مخلوق کی خاطر کوئی عمل چھوڑنا بھی ریا ہے یعنی آدمی کا کوئی نیک عمل کرنے کو دل چاہ رہا ہے اور کوئی موقع آیا لیکن آدمی اس ڈر سے رک گیا کہ اگر میں نے عمل کو چھوڑ دیا تو یہ ترکِ عمل للخلق ہے اور مخلوق کی خاطر کسی عمل کو چھوڑ دینا بھی ریا کاری ہے۔
مخلوق کی خاطر کسی عمل کو چھوڑنا نہیں چاہئے مثلاََ کسی شخص کا معمول ہے کہ وہ کسی خاص وقت میں تنہائی کے اندر نفلیں پڑھتا ہے لیکن اس وقت لوگ آ گئے یا وہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں پر لوگ دیکھنے والے موجود ہیں ، بعض وقت شیطان یہ بات دل میں ڈالتا ہے کہ اگر تم اپنے معمول کے مطابق نفلیں پڑھو گے تو یہ لوگ دیکھیں گے اور ان لوگوں کے دیکھنے سے ریاکاری کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا اس عمل کو چھوڑ دو ، تو بزرگوں نے فرمایاکہ نہیں، عمل کو نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ جو معمول ہے اسے پورا کرنا چاہئے ۔ کوئی دیکھنے والا تم کو ریا کار سمجھ رہا ہو تو سمجھا کرے، تو جس طرح عمل کرنا مخلوق کے لیے ریا ہے ، اسی طرح مخلوق کے لیے عمل کو چھوڑنا بھی ریا ہے۔
۔(درسِ شعب الایمان، جلد اول، صفحہ ۱۲۲)۔یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

