ہمارے اعمال بھی قابلِ قدر ہیں
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ یہ کہنا کہ ہماری نماز ہی کیا ؟ یہ قول بہت اچھا ہے مگر اس میں دو حیثیتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ہمارا فعل ہے، اس معنی میں تو یہ کہنا بالکل صحیح ہے کیونکہ اپنی چیز کو ہمیشہ گھٹیا ہی سمجھنا چاہئے ، اور ایک حیثیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو توفیق دی ہے، اس معنی میں یہ قول صحیح نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے اور خدا تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے۔ نماز (خواہ) لنگڑی لنجی ہو (مگر) اس حیثیت سے کہ عطیہ خداوندی ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔اگر اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی تو کیا کرتے۔ اگر ایک شخص کو روکھی روٹی ملے تو اس کو ناک چڑھا کر کھانا کفرانِ نعمت ہے کیونکہ اگر یہ بھی نہ ملی تو اس کا کیا بس تھا۔ اب واعظوں نے ایک حیثیت کو غائب کردیا ہے، ایک پر نظر رکھی ہے۔ لہذا جب بیان کریں گے تو یہی کہیں گے کہ تمہاری نماز کیا ؟ اور تمہارا روزہ کیا ؟ واعظ صاحب سے کوئی پوچھے کہ آپ کی نماز میں بھی دو حیثیتیں ہیں، اس میں بھی اسی ایک حیثیت پر نظر کیوں نہیں رکھتے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

