گلہ بانی سے حرم کی چوکھٹ تک
ہمیں ایک مرتبہ ایک واقعہ خود پیش آیا۔ یہ سنا کر بات کو مکمل کروں گا۔ مسکین پور شریف کچھ عرصہ جا کر رہنے کا موقع ملا تو وہاں ایک طالب علم تھا، قرآن یاد کرنے والا۔ اس کی عجیب کہانی تھی، وہ دیہات کا رہنے والا غریب ماں باپ کا بیٹا تھا، ماں باپ نے اس کو پچاس ساٹھ بکریاں رکھ کر دیں کہ بیٹا انہیں چرائو، ان کے دودھ اور گوشت سے ہمارا گزارا چلے گا۔ اب وہ بچہ جنگل میں بکریوں کو چرانے کے لئے نکلتا ، اکیلا بچہ پچاس ساٹھ بکریوں کو چراتا، جون جولائی اگست کی گرمی میں تو تنگ ہو جاتا۔ پسینہ سے شرابور ہوتا، پینے کو ٹھنڈا پانی تو کیا سرے سے وہاں ملتا ہی نہیں تھا۔ یہ بچہ اتنی مشقت برداشت کرکے شام کو آتا، سارا دن دھوپ میں رہنے کی وجہ سے رنگ کالا ہو گیا، جسم لاغر ہو گیا۔ ایک دفعہ اس کو ایک دوست ملا دونوں ہم عمر تھے، اس نے پوچھا سنائو کیا حال ہے؟ کہنے لگا کہ بس ماں باپ نے بکریاں مجھے لے کر دی ہیں صبح ہوتی ہے، میں لے کر نکلتا ہوں کوئی بکری ادھر بھاگتی ہے، کوئی ادھر اور ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر میرا تو حال برا ہے، گرمی اوپر سے، روٹی خشک ہوتی ہے، پینے کو پانی نہیں ہوتا، میں تو ایسی مشقت کی زندگی گزارتا پھرتا ہوں۔ دوسرے نے کہا: اچھا! میں تو بڑے مزے میں ہوں۔ میرے ماں باپ نے مجھے ایک مدرسہ میں داخلہ دلوایا ہے ، وہاں تو بجلی بھی ہے ، پنکھے بھی ہیں، سارا دن چھت کے نیچے سائے میں بیٹھنا ہوتا ہے صبح کو ناشتہ ملتا ہے، دوپہر کو کھانا ملتا ہے، رات کو کھانا ملتا ہے، ہم تو سارا دن قرآن پڑھتے ہیں، مزے کرتے ہیں۔ اب اس بچے کا دل للچایا کہنے لگا کہ بھئی! مجھے بھی لے جائو، اس نے کہا کہ آجانا۔
چنانچہ اگلے دن یہ بچہ ماں باپ سے بھاگ کر اس کے ساتھ مدرسے چلا گیا۔ اس نے جا کر مدرسے کے مہتمم کو کہا کہ یہ میری بستی کا بچہ ہے، اس کو داخلہ دے دیں تو انہوں نے اعتماد کرتے ہوئے اس کو داخلہ دے دیا۔ اب اس بچے نے جس نے سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا، جس کو گنتی نہیں آتی تھی، الف بے ، نہیں آتی تھی، بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنا شروع کردیا۔ مگر اس کے دل میں ایک شوق تھا، ایک لگن تھی، اشتیاق تھا۔ اتنے اچھے طریقے سے اس نے قرآن پاک یاد کرنا شروع کیا کہ اس بچے کو ہمیشہ سو میں سے ایک سو پانچ نمبر ملا کرتے تھے۔میں نے استاد سے پوچھا کہ جناب سو میں سے ایک سو پانچ کیسے؟ وہ کہنے لگے: اس کے اچھا پڑھنے کے سو میں سے سو اوراس کو نہ تو سبق سناتے ہوئے غلطی لگتی ہے، نہ تشابہ لگتا ہے، نہ اٹکن لگتی ہے، یہ روانی کے ساتھ ایسے پڑھتا ہے جیسے پانی بہہ رہا ہو۔ اس بچے کواضافی طور پر پانچ نمبر اوپر دے دیتے ہیں۔ اس بچے نے جتنا عرصہ پڑھا ہر امتحان میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر لئے اور پھر اللہ نے زبان پر قرآن کو جاری کردیا۔
کیا کوئیل کی آواز تھی جو اس کو ملی،، اتنے سوز سے وہ قرآن پڑھتا تھا، بندے کا دل موہ لیتا تھا۔ آج بھی مجھے یاد ہے، عصر کی نماز کے بعد میں کمرے میں بیٹھا مراقبہ کر رہا تھا، اس کی قرآن پاک پڑھنے کی آواز آئی، ایسی کشش تھی کہ مراقبہ کرنا مشکل ہو گیا۔ مراقبہ ختم کرکے میںاٹھا کہ میں جا کر بچے کا قرآن سنتا ہوں، جب باہر گیا تو عجیب حال دیکھا، پانچ چھ کلاسیں مسجد کے صحن میں لگی ہوئی تھیں، سارے بچے خاموش ہیں، استاد خاموش ہیں اور جو چلنے پھرنے گزرنے والے لوگ تھے، وہ کنارے کھڑے ہو کر سن رہے ہیں اور اس بچے نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور سورۃ یوسف پڑھ رہا ہے۔ کیا اس نے سورۃ یوسف! پڑھی بڑے عجیب لمحات تھے زندگی کے کہ قرآن سینوں میں اترتا چلا جا رہا تھا۔ ایسی آواز سے وہ بچہ پڑھ رہا تھا۔
اس بچے نے قرآن یاد کر لیا تو اب اس کو علم پڑھنے کا شوق ہوا۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ وہ عالم بھی بن گیا۔ پھر جو بندہ قرآن سے محبت کرتا ہے قرآن گرے پڑوں کو اٹھانے کے لئے آیا ہے، یہ پس ماندہ لوگوں کو اللہ کے قریب کرنے کے لئے آیا ہے، جو دنیا میں کمزور ہوتے ہیں ان کو عزتیں دینے کے لئے آیا ہے۔ کیونکہ اخلاص کے ساتھ اس نے قرآن پڑھا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ ایک مرتبہ کہیں قرأت کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس میں انعام رکھا گیا کہ جو سب سے اچھا قرآن پڑھے گا تو ہم اس کو عمرے کا ٹکٹ انعام میں دیں گے۔ ملک کے طول و عرض سے قرأ آئے قرآن پڑھنے کے لئے۔ انہوں نے عرب کے ایک شیخ تھے، بڑے عالم تھے، ان کو بطور جج بلایا کہ آپ فیصلہ کریں گے کہ کون اول نمبر پر آیا۔ سب نے قرآن پڑھا، اس بچے نے بھی قرآن پڑھا، مگر اس کا قرآن تو ایسا تھا کہ کوئی آنکھ نہیں تھی جس میں سے آنسو نہ بہہ رہا ہو۔ ایک قرآن کی اپنی مقناطیسیت اور اس کے اوپر اس بچے کا اخلاص ، نور علی نور ہو گیا، مجمع عجیب کیفیت میں آ گیا۔ چنانچہ جب رزلٹ انائونس ہوا تو عرب نے اس وقت کہا کہ آج بچے کو دو انعام ملیں گے، ایک انعام جو مسجد کمیٹی والوں نے دینا ہے (عمرے کا ٹکٹ) وہ ملے گا اور دوسرا انعام میں اپنی طرف سے دوں گا۔ اب مجمع حیران تھا۔ اس نے کہا کہ کیا یہ قاری صاحب انعام لینے کے لئے تیار ہوں گے؟ تو قاری صاحب کھڑے ہو گئے کہ جی ہاں اس نے پوچھا کہ میں اپنی بیٹی سے اجازت لے کر آیا ہوا ہوں میں اپنی بیٹی کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں، مجمعے میں قاری صاحب کا اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح کردیا گیا۔ اللہ نے مہربانی کی یہ یہاں سے گیا، اقامہ بھی مل گیا۔ وہ بچہ جو کبھی دھوپ کے اندر بکریوں کے پیچھے بھاگتا تھا، آج حرم کے اندر طواف کرتا ہے، زبان پر اﷲ کا قرآن ہوتا ہے۔ (ج ۳۴ ص ۲۶۸)
اگرآپ کو یہ واقعہ پسند آیا ہے تو اسکو شئیر ضرور کریں اور اس طرح کے دیگر اسلامی واقعات اور اولیاء اللہ کے حالات و تذکرے آپ ہمارے ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھا سکتے ہیں ۔
تمام اسلامی مواد اور دیگر کیٹگریز کو دیکھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://readngrow.online/readngrow-categories/
نیز ہم اس ویب سائٹ کی مفید چیزوں کو اس واٹس ایپ چینل پر بھی شئیر کرتے رہتے ہیں ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaviXiKHFxP7rGt5kU1H
یہ چینل فالو کرلیں ۔

