کوشش کریں پُل بناتے رہا کریں (1)۔
دو بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے- دونوں چالیس سال سےاتفاق کیساتھ ہنسی خوشی زندگی بسرکررہے تھے- کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلاجھجھک دوسرے کے وسائل استعمال کرلیتے ۔
ایک دن ان دونوں کا اختلاف ہوگیا۔ اور اختلاف ایسا بڑھا کہ بول چال بندہو گئی۔ چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالم گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا۔ تاکہ اب دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہوسکے ۔
بڑے بھائی کو بھی غصہ آگیا ۔ اگلے دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ھوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اُس نے کل بلڈوزر سے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑھ لگا دو کیونکہ میں اسکی شکل بھی اب نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو۔ترکھان ساری بات سمجھ گیا اور سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ پیمائش کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں۔موقع دیکھنے کے بعدوہ دونوں جا کرضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے-
ترکھان نے کہا : اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا۔صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ یہ دیکھ کراس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا۔جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑاہوا اُس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا(چھوٹا بھائی بہت شرمندہ تھا کیونکہ اُس نے یہ سمجھا کہ شاید بھائی نے صلح کی طرف قدم بڑھایا ہے) چند لمحے وہ خاموشی سے دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑےتھے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔ اسی دوران گھروں سے دوسرے افراد بھی نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔ اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ کھاڑی، دیوار اور فاصلے بنانے کی بجائے پل بنائیں ۔کبھی کبھی اینٹ کا جواب پتھرسے دینے کی بجائے پھول سے دے دیا کریں۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔