کتب بینی اور شوق مطالعہ کا فقدان (191)۔

کتب بینی اور شوق مطالعہ کا فقدان (191)۔

جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو راستے میں سڑکوں پر، مختلف عمارتوں پر اور مارکیٹ کی مختلف دوکانوں میں رنگا رنگ اشتہارات نظر آتے ہیں ۔ یہ اشتہار کپڑوں کے ہوتے ہیں، جوتوں کے ہوتے ہیں، گھڑیوں اور عینکوں کے ہوتے ہیں، میک اپ کے سامان اور موبائلوں کے ہوتے ہیں ۔
اسکے علاوہ بھی بیکری کے اشتہارات، صابن کے اشتہارات اور بیسیوںدیگرمارکیٹنگ مواد ، ٹی وی اسکرین اور مختلف قسما قسم کے ایڈورٹائزمنٹ آپکو نظر آتی ہے ۔ مگر میں ایک چیز ہمیشہ سوچتا ہوں کہ وہ واحد چیز جس کا اہمیں اشتہار نظر نہیں آتا وہ کتابیں ہیں ۔
بحمداللہ تعالیٰ لاہور کراچی اور دیگر بڑے بڑے شہروں میں کتاب میلہ ، بک فیئرز اور کتابوں کی نمائشیں لگتی ہے مگر اسکے علاوہ کتب بینی اور مطالعہ کو ہماری قوم نے اتنا پس پشت ڈال دیا ہے کہ کتابیں شائع کرنے والے ناشرین اشتہار لگانا نہیں چاہتے اور عوام بھی نہیں دیکھنا چاہتی ۔
مجھے اس چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ اکثر یہی خیال آتا ہے کہ ہماری پوری قوم میں اتنے زیادہ اسکول، کالجز، یونیورسٹیاں، مدرسے اور طرح طرح کے تعلیمی ادارے ہونے کے باوجود بھی پورے ملک میں لڑائی جھگڑے اور تقسیمات کیوں ہیں؟
کیونکر لوگوں کو امن سے رہنا نصیب نہیں ہوتا؟
تو اسکی واحد وجہ میرے خیال میں کتب بینی اور مطالعہ سے دوری ہے ۔ کتابیں، جو انسان کے شعور کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہیں، آج اس توجہ سے محروم ہیں جو انہیں ملنی چاہیے۔ ہماری قوم، جو اسکولوں، کالجز اور مدارس سے بھرپور ہے، کتب بینی کو نظرانداز کر چکی ہے۔ تعلیمی ادارے تو موجود ہیں، لیکن ہماری سڑکوں اور عمارتوں پر کتابوں کے اشتہارات کہیں نظر نہیں آتے۔ یہی وہ کمی ہے جو معاشرتی تقسیم، جھگڑوں، اور بدامنی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اچھے اچھے پروفیسر اور بڑے بڑے مدارس کے اساتذہ بھی اپنے کورس کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھتے چہ جائیکہ وہ اپنے طلبائے کرام کو ترغیب دیتے۔ حالانکہ مطالعہ وہ واحد ذریعہ ہے جوشعور کو ترقی دیتا ہے اسکے بغیر کوئی دماغ پروان نہیں چڑھ سکتا اور کوئی بھی شخص اپنے محدود سوچ سے باہر نہیں نکل سکتا ۔
یہ ایک بہت بڑی کمی ہمارے مزاج میں ہے جس کو پورا کرنے کے لئے میں نے ایک چھوٹا سا کتابچہ بنام “کتاب اور مطالعہ” ترتیب دیا ہے ۔ جس میں کتب بینی کی اہمیت اور مطالعہ کا شوق واضح کرنے کے لئے مختصر سا مواد جمع کیا گیا ہے تاکہ جو لوگ مطالعہ کی لذت سے نا بلدہیں اُنکو متعارف کروایا جائے ۔
بحمداللہ تعالیٰ یہ اس کتابچے کا تیسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے ۔ مختلف پروفیسر، اساتذہ، لائبریری مالکان اور دیگر ادب سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں نے اس کتابچے کو بے حد پسند کیا اور کافی تعداد میں تقسیم بھی کیا۔
یہ کتابچہ آپ ہماری ویب سائٹ کتاب فروش پر آرڈر کرسکتے ہیں یا پھر واٹس ایپ نمبر پر رابطہ فرماکر گھر بیٹھے منگوا سکتے ہیں ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more