کام کی تقسیم اور کامیابی کا طریقہ
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ سب کومل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تجربہ کا کام تو لیڈر کریں کہ وہ کسی کام کے کرنے سے پہلے علماء سے جائز نا جائز معلوم کرلیں اور احکام بتلانے کا کام علماء کریں۔ اس طرح ہر شخص اپنے فرض منصبی کو انجام دے۔ اس صورت میں کامیابی کی امید نکل سکتی ہے کہ ہم اپنا کام کریں وہ اپنا کام کریں۔ سب کے مل کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ سب ایک کام میں لگ جائیں یا ایک کا کام دوسرا کرنے لگے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک مکان تیار کیا جارہا ہے، اس کی تیاری کے لئے معمار کی بھی ضرورت ہے، بڑھئی کی بھی ضرورت ہے، مزدور کی بھی ضرورت ہے۔ اب یہ بتلاؤ کہ سب مل کر جو تعمیر کا کام کر رہے ہیں ، اس کا کیا طریقہ ہے؟ یہی کہو گے کہ معمار اینٹ بنائے ، مزدور گارا پہنچائے، اینٹ پہنچائے ، بڑھئی آرا چلائے ۔ جب یہ سمجھ میں آ گیا تو اب میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سب مل کر اینٹ ہی لگانے لگیں یا سب کے سب آرا ہی چلانے لگیں یا سب کے سب گارا ہی پکڑانے لگیں تو کیا مکان تیار ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اسی طرح یہاں خیال کر لو کہ سب کو مل کر کام کرنے کے یہ معنی ہیں کہ تجربہ کا کام تو لیڈر کریں اور احکام بتلانے کا کام علماءکریں۔ ہر قوم کے لئے تقسیم خدمات ضروری ہے ، اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ تمام اہل تمدن اس کی ضرورت پر متفق ہیں۔ چنانچہ جنگ میں فوج جاتی ہے، فوجی افسر جاتے ہیں۔ منشی محرر کلکٹر اور جج وغیرہ نہیں جاتے۔ پھر نہ معلوم مولویوں کے ذمہ سارا کام کیوں رکھا جاتا ہے کہ وہ تفسیر و حدیث و فقہ کا علم بھی حاصل کریں، فتوی بھی دیں ، وعظ بھی کہیں ، درس و تدریس بھی کریں ، مدرسے بھی قائم کریں اور لیڈروں کے ساتھ جھنڈا لے کر سیاست میں بھی شریک ہوں۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

