کامل انسانیت کا طبقہ
انبیاء علیہم السلام کی یہی زندگی ہے کہ بشر بھی ہیں اور ملک بھی۔ نہ طبائع کو ترک کرتے ہیں نہ عقل و فراست کے تقاضوں سے ایک انچ اِدھر اُدھر ہوتے ہیں۔ خالص طبعی جذبات کی پیروی حیوان کا کام ہے اور طبعیات سے کلیۃً باہر رہ کر محض عقل کلی کی پیروی فرشتوں کا کام ہے ، لیکن طبعیات کو بحالہ قائم رکھ کر انہیں عقلی شعور کے ساتھ عقل کی ماتحتی میں انجام دینا اور حدود سے تجاوز نہ کرنا یہ انسان کا کام ہے۔ مگر انسان کامل فرما کر اس کے تقدس و برگزیدگی کو نمایاں کیا گیا۔
اس لئے جس طبقہ کے افعال قویٰ ، عقائد ، احوال ، اقوال سب میں یہ کامل اعتدال رچا ہوا ہو۔ وہی طبقہ کامل انسانیت کا طبقہ کہلائے گا۔ سو طبقاتی حیثیت سے یہ کمال بالذات تو انبیاء علیہم السلام میں ہوتا ہے اور بالعرض بحیثیت طبقہ ان کے صحابہ رضی اﷲ عنہم میں ان کے بعد طبقاتی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ صرف انفرادی حیثیت باقی رہ جاتی ہے اور وہ بھی اس مقام کی نہیں جس پر یہ طبقہ فائز ہوتا ہے۔
