کئی بیویاں کرنے کی نزاکت
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
ارشاد فرمایا کہ متعدد بیویوں کے حقوق اس قدر نازک ہیں کہ ہر ایک کا نہ وہاں ذہن پہنچ سکتا ہے اور نہ ان کی رعایت کا حوصلہ ہو سکتا ہے ، چنانچہ باوجودیکہ رات کو رہنے اور لباس اور کھانے پینے میں برابری کا ہونا سب جانتے ہیں مگر اس کا بھی اہتمام نہیں ہوتا ۔ باقی ان مسائل کو تو کون خیال کرتاہے جس کو فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر ایک بی بی کے پاس مغرب کے بعد جاتا ہے اور دوسری کے پاس عشاء کے بعد تو اس نے عدل کے خلاف کیا ۔ اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری سے صحبت جائز نہیں اگرچہ دن ہی ہو ، اور لکھا ہے کہ ہر ایک کی باری میں دوسری کے پاس جانا بھی نہ چاہیے۔ اور لکھا ہے کہ اگر مرد بیمار ہو گیا اور اس وجہ سے دوسری کے پاس نہیں جا سکتا ، اس لیے ایک ہی کے پاس رہا تو صحت کے بعد اتنی مدت تک دوسری کے پاس رہنا چاہیے اور لینے دینے میں برابری کرنے کی جزئیات بھی اس قدر دقیق ہیں کہ ان کی رعایت کرنا ہر شخص کا کام نہیں۔
نیز فرمایا کہ مذکورہ بالا حقوق تو واجب تھے ، بعض حقوق مروت کے ہوتے ہیں گو واجب نہیں ہوتے مگر ان کی رعایت نہ ہونے سے دل شکنی ہوتی ہے جو کہ رفاقت کے حقوق کے خلاف ہیں ، ان کی رعایت اور بھی دقیق ہے ۔ غرض کوئی شخص واقعات و معاملات کے احکام علماء سے پوچھے اور عمل کرے تو نانی یاد آجائے گی اور تعدد ازواج سے توبہ کر لے گا۔(صفحہ ۳۸۲،اسلامی شادی)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات نکاح یعنی اسلامی شادی سے متعلق ہیں ۔ ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں