ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو خوش آمدید (180)۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو خوش آمدید (180)۔

پاکستان کی سرزمین پر عالمِ اسلام کے مایہ ناز محقق ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی آمد ایک علمی اور فکری حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاکستانی عوام کو ان کے ذریعے علمِ دین اور تقابلِ ادیان کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ڈاکٹر صاحب کے کئی پروگرامز پاکستان میں منعقد ہونے جا رہے ہیں، جہاں وہ اپنے علمی خزانے سے عوام کو مستفید کریں گے۔ اُن کی شخصیت کو دنیا بھر میں تقابل ادیان کے ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے ذریعے بے شمار افراد نے اسلام کی حقانیت کو قبول کیا ہے، جو ایک عظیم خدمتِ دین ہے۔
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے سے ایک عجیب و غریب فضا بنائی جا رہی ہے کہ شاید یہاں کے علمائے کرام ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی موجودگی سے تشویش میں مبتلا ہیں اور ان کی علمی خدمات کو اپنی دینی مصروفیات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ مقامی علمائے کرام کو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سےیہخطرہ لاحق ہےکہ ان کی آمد سے “مولویوں کی دکان بند ہو جائے گی”۔نعوذباللہ۔ یہ ایک غیر حقیقی اور بے بنیاد تاثر ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام ہمیشہ دین کی خدمت میں مصروف رہتےہیں اور دین کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے علمائے کرام بشمول مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی طارق مسعود صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب وغیرھم یہ سب حضرات ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ملاقات کر چکے ہیں اور ان کی علمی خدمات کو قدر کی نفاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان ملاقاتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اورپاکستانی علمائے کرام میں کوئی بڑے درجے کا اختلاف نہیں ہے، بلکہیہ سب لوگ دین کی مشترکہ خدمت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔اختلافات جو کہ ایک فطری تقاضا ہیں۔ وہ علمی دائرے میں رہتے ہیں اور کبھی مذہبی منافرت یا مسلکی جھگڑوں میں تبدیل نہیں ہوتے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اس سوچ کو پھیلائیں کہ دین کی خدمت میں ہر عالمِ دین اپنے انداز میں مصروف ہے۔ معمولی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر منافرت کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ ایسے اختلافات سے علم و فکر کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہمارا فریضہ یہ بنتا ہے کہ ہم تمام علمائے کرام اور ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب جیسے عظیم اسکالرز کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔ ان سب کو ایک ہی پلیٹ فارم یعنی دینی خدمات کے منصب پر دیکھیں۔ اُمت کے درمیان اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں۔
دُعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو اللہ تعالیٰ تمام جہات سے دین اسلام کے لئے نافع بنائے اور اُنکو سلف صالحین کے راستے پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more