چھوٹوں سے معافی مانگنے کا طریق
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ چھوٹوں سے معافی مانگنے میں بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم صریح الفاظ میں معافی مانگیں گے تو گستاخ ہوکر زیادہ نافرمانی کرے گا۔بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم معافی مانگیں گے تو یہ شرمندہ ہوگا۔ مگر یہ عذر اس وقت ہیں جب اس سے تعلق رکھنا چاہیں۔ان صورتوں میں تو صرف اس کا خوش کر دینا امید ہے کہ قائم مقام معافی کے ہوجائے گا اور بعض اوقات اس سے تعلق ہی نہیں رکھنا جیسے ملازم کو موقوف کردیا یا وہ خود چھوڑ کر جانے لگے،اس وقت ضروری ہے کہ زیادتی ہوجانے کی صورت میں اس سے صریح معافی مانگی جائے کیونکہ وہ دونوں عذر نہیں ۔اس میں اگر کوئی رکاوٹ ہو تو میرے نزدیک اس کا سبب ضرور کبر ہے گو اپنے کو بڑا نہ سمجھے مگر کبر کے مقتضاء پر عمل تو ہوا۔ غایت سے غایت کبر اعتقادی نہ ہوگا مگر عملی تو ضرور ہوا۔ اگر کوئی کبر کی تقسیم کو تسلیم نہ کرے تب بھی ظلم تو ہوا جس سے معافی مانگنا واجب ہے تو معافی نہ مانگنے میں کبر کا گناہ نہ ہوا تو ظلم کا تو ہوا۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

