پیسہ کم ….اور محنت زیادہ لگاؤ (159)۔
بہت بڑی بڑی دکانوں کو میں نے بند ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ بالخصوص ایسی دکانیں، پلازے اور کاروبار جو یکدم بلند ہوئے وہ پھر یکدم بند بھی ہوگئے ۔ البتہ میں نے ایسا کوئی کاروبار آج تک نہیں دیکھا جس نے اپنا چھوٹا سا کام شروع کیا ہو اور اُسکو بتدریج بڑھایا ہو لیکن وہ پھر ناکام ہوگیا ہو ۔ بلکہ جس شخص نے بھی چھوٹے سے کام کو لگن، محنت اور صبر سے کیا وہ پھر ایک بہت بڑاکامیاب تاجر بنا ۔ بخلاف اسکے بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں کوئی عالیشان عمارت یکدم بنی ہوئی نظر آئی اور پھر وہ چند دن بعد ہی زمین بوس ہوگئی ۔
مثلاً ملتان میں ایک بہت بڑا کاروبار اچانک سے مصروف ترین بازار گلگشت میں نمودار ہوا ۔ یہ ایک انوکھا ہوٹل تھا ۔ میری شنید کے مطابق اس پر تقریباً دس کروڑ روپیہ صرف کیا گیا تھا ۔ ان لوگوں نے حد سے زیادہ ہوٹل کو خوبصورت بنا کر اور انتہائی تربیت یافتہ عملہ کو مقرر کرکے ہلکی سی نیلی روشنی کے ماحول میں یہ ہوٹل بنایا ہوا تھا ۔ پورے ہوٹل میں ایک بھی بلب سفید اور تیز روشنی والا نہیں تھا ۔ بلکہ نیلی مدھم روشنی میں پورا ہوٹل ڈوبا ہوا تھا ۔ لیکن اتنی محنت، مشقت اور زر کثیر خرچ کرنے کے بعد بھی ہوٹل تین یا چار ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہ سکا ۔
بالکل اسی طرح سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جو یکدم اٹھے اور پھر یکدم بیٹھ گئے ۔ کیونکہ ہمارے بڑوں نے ہمیں ایک بات سمجھا دی تھی کہ جس مال کو، کاروبار کو یا کمپنی کو بتدریج پروان چڑھایا جائے تو وہ پھر سالہا سال پھلتی پھولتی اورترقی کرتی رہتی ہے ۔ صدیوں تک وہ کام بڑھتا رہتا ہے ۔
مگر دور حاضر کے نوجوانوں میں بتدریج کام کرنے کا حوصلہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔ ہر نوجوان کی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے لاکھوں روپے مل جائے اورمیں ان پیسوں سے ایسا کام شروع کروں گا کہ چند ہی دنوں میں لاکھوں روپیہ کمائی شروع ہوجائیگی۔ مگر یادرکھیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر اتنے آسان شارٹ کٹ اس دنیا میں ہوتےتوپھر کوئی بھی محنت مزدوری نہ کرتا بلکہ ایسے ہی عالیشان کاروبار شروع کرکے عیاشیوں میں لگ جاتے۔
مگر رزق کے حصول کے لئے محنت اور بتدریج ترقی یہ دونوں ایسے اصول ہیں جو صدیوں سے رائج ہیں اور سائنس کی کوئی بھی ٹیکنالوجی انکا متبادل نہیں لا سکی۔ میرے اپنے مشاہدہ میں یہ بات تب آئی جب آج سے قریب چھ سال پہلے میرے پاس ایک نوجوان (سولہ سترہ برس کے)ملازمت کے انٹرویو کے لئے آئے۔ اُنکی تعلیم اورتجربہ تقریباً صفرتھا۔ مگر مجھے اُنکے حوصلے اور جذبے کی وجہ سے اُنکے ساتھ لگاؤ ہوگیا۔ اُنکو میں نے بتایا کہ اگر آپ دو سے تین گھنٹے کام کریں تو آپکو دس ہزار روپیہ ماہانہ مل سکتے ہیں۔ میرے اردگرد کی مارکیٹ کے حساب سے یہ رقم معقول تھی۔ اوریہ بات بھی ملحوظ تھی کہ انکی تنخواہ بتدریج بڑھ جائیگی۔ مگر اُنکو اپنی توہین محسوس ہوئی کہ میں اتنا عالی ہمت ہوکر اتنی کم تنخواہ پر کیسے کام کرسکتا ہوں۔
بہرحال وہ منہ چڑا کر واپسچلےگئے۔ میں نے اُنکے والد سے رابطہ کیا تو معلوم ہواکہ صاحبزادے کی فرمائش ہےکہ پانچ لاکھ روپیہ دو میں اپنا کاروبار کرتا ہوں۔ کس چیز کا کاروباراور کیسے کرنا ہےاسکا جواب نہیں تھا۔ بہرحال اسکے والداتنے پیسے نہ دے سکے۔
مگر دوستو! آج چھ سال گزرنے کے بعد بھی وہ لڑکا اسی کشمکش میں فارغ بیٹھا ہوا ہے کہ کوئی مجھے پیسے دیدے تو میںاپناکاروبار شروع کروں جبکہ اگر وہ ملازمت قبول کرلیتااور محنت سے کام شروع کردیتا تو آجکم وبیش دس لاکھ روپیہ اپنی محنت سے بنا چکا ہوتا!
تو اسمیں ایک سبق ہے کہ تھوڑے سے پیسوں اور زیادہ محنت سے کام شروع کردو۔ پھر لگن سے کرتے رہے تو یقیناً کامیاب ہوجاؤ گے۔
لیکن اگر زیادہ پیسوں اور کم محنت
کے چکر میں پڑ گئے تو پھر کامیابی یقینی نہیں ہے ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

