پردہ سے متعلق چند ضروری احکام و مسائل (دوسری قسط)۔
(۲)
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
مسئلہ : علماء نے فسادِ زمانہ کو دیکھ کر بعض محرموں کو نامحرموں کے مثل قرار دیا ہے، احتیاط وانتظام کی وجہ سے، جیسے خسر اور جوان عورت کا داماد، اور شوہر کا بیٹا اور اس کی دوسری بیوی اور رضاعی بھائی وغیرہم ، اہل تجربہ کو معلوم ہے جو کچھ ایسے تعلقات میں فتنہ وفساد واقع ہورہے ہیں۔
مسئلہ : جو شرعاً نامحرم ہو اس کے سامنے سر اور بازو اور پنڈلی وغیرہ بھی کھولنا حرام ہے اور اگر بہت ہی مجبوری ہو مثلاً عورت کو ضروری کاموں کے لئے باہرنکلنا پڑتا ہے یا کوئی رشتہ دار کثرت سے گھر میں آتا جاتا رہتا ہے اور گھر میں تنگی ہے کہ ہر وقت کا پردہ نبھ نہیں سکتا تو ایسی حالت میں جائز ہے کہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی کے جوڑ تک اور دونوں پاؤں ٹخنے کے نیچے تک کھولے رکھے ، اور اس کے علاوہ اور کسی بدن کا کھولنا جائز نہ ہوگا۔ پس ایسی عورتوں کو لازم ہے کہ سر کو خوب ڈھانکیں، کرتہ بڑی آستین کا پہنیں ، کلائی اور ٹخنے نہ کھلنے پائیں، کوئی مجبوری نہ ہو تو اتنا بھی ظاہر نہ کریں بلکہ گھر میں بیٹھیں اور شرعی یا طبعی ضرورت سے نکلیں تو برقع پہنیں جیسا کہ شرفاء میں معمول ہے۔
مسئلہ: جس عضو کا ظاہر کرنا جائز نہیں جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے اس کو مطلقاً دیکھنا حرام ہے، گوشہوت بالکل نہ ہو، اور جس عضو کا ظاہر کرنا اور نظر کرنا جائز ہے اس میں یہ قید ہے کہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو، اور اگر ذرا بھی شک ہو تو اس وقت دیکھنا حرام ہے۔ یہاں سے سمجھئے کہ بوڑھی عورت جس کی طرف بالکل رغبت نہ ہو تو اس کا چہرہ دیکھنا تو جائز ہوگا مگر سر اور بازو وغیرہ دیکھنا جائز نہ ہوگا۔ عورتیں گھروں میں اس کی احتیاط نہیں کرتیں، اپنے نامحرم رشتہ داروں کے سامنے نگے سر، بے آستین کا کرتہ پہنے بیٹھی رہتی ہیں اور خود بھی گنہگار ہوتی ہیں اور مردوں کو بھی گنہگار کرتی ہیں۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

