پرانے لوگوں میں اسلاف و بزرگوں کا ادب
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ پرانے لوگوں میں دین کا بزرگوں کے ادب کا بہت اثر تھا اس وقت کے بگڑے ہوئے ان نئے سنورے ہوئوں سے اچھے تھے مولوی شبلی صاحب کا واقعہ ہے کانپور میں ان کا لیکچر ہوا تھا مولوی فاروق صاحب جو ان کے استاد تھے وہ اس وقت کانپور کے ایک مدرسہ میں مدرس تھے وہ بھی اس بیان میں شریک تھے جب بیان ختم ہوچکا تو استاد کے پاس آکر بیٹھ گئے استاد نے محض سادگی سے پیر پھیلادیئے کہ شبلی پیر دکھ گئے ہیں ذرا دبا دیجئو بس دبانے لگے اور کوئی اثر ناگواری کا ظاہر نہیں ہوا یہ اثر تھا پرانے ہونے کا اور پہلے بزرگوں کی صحبت کا اب یہ باتیں کہاں یورپ کے مذاق نے ناس کردیا نہ ادب رہا نہ تہذیب مسلمانوں نے بھی وہی طرز معاشرت اختیار کرلیا حتیٰ کہ اعتراف جرم پر بھی جو معافی مانگی جاتی ہے وہ بھی معافی نہیں صرف واپس لینے کے الفاظ پڑھ دیئے جاتے ہیں ۔
یہ اس تعلیم انگریزی کے کرشمے ہیں حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے ایک حکایت سنی ہے کہ ایک باپ بیٹے کرسی پر آمنے سامنے بیٹھے تھے بیٹے نے انگڑائی لی اس میں جو پیر پھیلائے تو اس کے جوتے باپ کی داڑھی میں لگ گئے کسی نے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے باپ ہیں تو بیٹے ابھی کچھ نہ بولے تھے خود باپ ہی بولے کہ حرج کیا ہوا یہاں تک بے حسی بڑھ گئی ہے۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۶)
