وہاں پر جھوٹ نہیں چلے گا! (130)۔

وہاں پر جھوٹ نہیں چلے گا! (130)۔

وطن عزیز پاکستان میں وکیل حضرات عموماً مضبوط شواہد کے ذریعے کیس جیتتے ہیں۔ لیکن، اکثر اوقات مضبوط ترین شواہد میں بھی کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے، اور بعض وکیل اسی کمی کا فائدہ اٹھا کر قانونی بحث مباحثے کے ذریعے جھوٹ کو سچ بنا دیتے ہیں اور جج کو غلط فیصلہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
جج پر اتنی زیادہ ذمہ داری نہیں آتی کیونکہ وہ تو اُسی مواد کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے جو وکیلوں نے اس کے سامنے پیش کیا ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی بڑی حد تک وکیلوں کے طرز عمل پر منحصر ہے۔
مثلاً ایک چھوٹا سا واقعہ سن لیجئے کہ ایک زمیندار آدمی نے شادی کی اور اپنی بیوی کے نام کافی ساری زمین بھی لکھ دی۔ بعد ازاں شادی کے دو سال بعد بچہ بھی ہوگیا اور چھ یا سات سال گزرجانے کے بعد زمیندار کے متکبرانہ طرز عمل کی وجہ سے بیوی طلاق لینے پر مجبور ہوگئی۔ اب حالانکہ پوری دنیا جانتی تھی کہ یہ بچہ اُسی زمیندار شخص کا ہے۔ لیکن اُس نے وکیل کو غلط راستے پر ڈال کر اپنے ہی بچہ سے متعلق تہمت لگا دی کہ میری بیوی بدچلن ہے اور یہ بچہ میرا نہیں ہے۔
بس پھر کیا تھا اُس وکیل نے بھی پیسے لے لئے اور کیس کا فیصلہ اُسی زمیندار کے حق میں ہوگیا۔ یہ واقعہ مجھے اُس وکیل کے منشی نے سنایا تھا۔ اور اُس نے بھی مجھے اسلئے سنایا کہ وہ وکیل اب مرچکا ہے لیکن میری روح آج تک کانپتی ہے کیونکہ میں بھی اُسکے ساتھ شامل تھا اور وکیل اور میرے علاوہ بھی ہر کسی کو معلوم تھا کہ بچہ حقدار ہے مگر۔۔۔۔!!!۔
تو دوستو! اگر وکیل جھوٹ بولنے کو معمولی چیز سمجھ لیں گے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب جھوٹ نہیں چلے گا۔ اُس دن شواہد اتنے مضبوط ہوں گے کہ اس جھوٹ بولنے والے وکیل کے اعضاء بھی خود اس کے خلاف گواہی دیں گے اور ہر چیز اتنی واضح ہوگی کہ جرح کی گنجائش بھی نہیں بچے گی بلکہ جرح کی اجازت بھی نہیں ہوگی کیونکہ ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہوگی۔
وکلائے کرام کو یاد رکھنا چاہئے کہ عدل و انصاف کی فراہمی ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اپنے پیشے کی حرمت کو برقرار رکھیں گے اور سچائی کو اپنا اصول بنائیں گے تو نہ صرف وہ اپنے موکلوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے بلکہ پورے معاشرے میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔
ابھی سے خود کو سنبھالیں، ورنہ پھر بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کے اعمال کا اثر نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی ہوگا، جہاں ہر چیز کا حساب لیا جائے گا۔ اس لیے اپنے پیشے کی عظمت کو پہچانیں اور سچائی اور انصاف کی راہ پر چلیں۔یاد رکھیں! ہوسکتا ہے اس عدالت میں آپ جھوٹ بول کر بچ جائیں مگر اُس عدالت میںیہ ممکن نہیں ہوگااور اُس وقت پھر واپسی کا بھی کوئی راستہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔
اللہ تعالیٰ جھوٹ کی نحوست اور شیطان کے راستے پر چلنے سے ہم کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more