وقوفِ عرفہ کی حقیقت اور اس کی اہمیت
ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم سرورِ دوعالم ﷺ فرماتے ہیںکہ الحج عرفہ (عرفات میں حاضری ہی حج ہے)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج عرفات میں جانے کا نام ہے اور یہ ایسا رکن ہے کہ اگر یہ فوت ہوجائے تو اس کا کچھ بدل نہیں ۔ حج میں بعض اعمال تو ایسے ہیں جو بظاہر عبادت معلوم ہوتے ہیں جیسے خانہ کعبہ کا طواف مگر وہ حج نہیں کیونکہ جو شخص تنگ وقت میں مکہ پہنچے اس کو حکم ہے کہ سیدھا عرفات پہنچ جائے اور طواف وغیرہ کو ترک کردے اور عرفات میں جانا ایسا عمل ہے کہ وہاں بظاہر کوئی عبادت نہیں ، نہ کسی خاص چیز کی تعظیم ہے ، نہ وہاں کوئی خاص نماز مقرر ہے ، پنج وقتہ نماز تو سب جگہ ہے وہاں بھی ہے مگر عرفات میں جانا ہی سب کچھ ہے ۔حج اسی کا نام ہے کہ نویں تاریخ کی نصف النھار(زوال) کے بعد سے دس ذی الحجہ کی صبح تک کسی ایک منٹ میں ایک قدم عرفات کے اندر رکھ دے ، بس اس وقت میں اگر کسی وقت بھی ایک قدم عرفات میں پڑ گیا خواہ جاگتے ہوئے یا سوتے ہوئے ، ہوش میں یا بے ہوشی میں تو حاجی بن گئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقوفِ عرفات کی حقیقت دربارِ شاہی کی حاضری ہے ۔ جب ہی تو اس میں اور کچھ شرط نہیں ، صرف ایک قدم وہاں ڈال دینا شرط ہے۔ (امدادالحجاج ،صفحہ ۲۶۴)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات جو حج سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

