وحی اور عقل
حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دین عقل کے موافق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی چیز دلیل عقلی کیخلاف نہیں عقل کو بعض احکام کے بیان میں تردد ہوتا ہے اور وحی کو کسی حکم کے بیان میں تردد نہیں ہوتا اصل مآخذ وحی ہے۔
غرض کسی چیز کے حسن و قبح کے ادراک کے لیے جو عقل کو کار آمد کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ عقل ان کے ادراک کیلئے کافی ہے۔
یہ شان صرف وحی کی ہے عقل صرف موید ہوسکتی ہے کافی نہیں ظاہر بات ہے کہ اگر عقل اس کے لیے کافی ہوتی تو بہت سے وہ لوگ جو عقل معاش میں بہت بڑھے ہوئے ہیں وہ ایمان سے کیوں محروم ہوتے اہل عقل ہونا ان کا مسلم ہے۔
پھر ایمان کے حسن کو کیوں ادراک نہیں کیا۔ اور کیوں اس دولت سے مشرف نہیں ہوئے۔ مگر جب ان کو وحی کی رہبری سے سمجھایا جاتا ہے تو ان کو بھی اس کی ضرورت کو ماننا پڑتا ہے۔ ( مواعظ اشرفیہ ج ۲۶ ص ۳۱)
