نسبت کے ساتھ عمل کی ضرورت
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ برکت کی مثال چٹنی اور مربے کی سی ہے جو کہ جزو بدن ہوتی ہے۔ مربے اور چٹنی معینِ ہضمِ طعام (یعنی کھانا ہضم کرنے میں معاون) ضرور ہیں لیکن غذا بھی ہونی چاہیے اور اگر غذا نہ ہو، صرف مربے اور چٹنی مہمان کے سامنے رکھ دیں اور روٹی وغیرہ کچھ نہ ہو تو کیا اس سے کام چل سکتا ہے؟ پس اسی طرح انتساب الى الانبياء والاولیاء باعثِ برکت فی الاعمال ہے نہ کہ نجات کے لیے انتساب ہی کافی ہو۔ اس لیے حضور ﷺ نے اپنی چہیتی بیٹی کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے فاطمہ! اپنا نفس آگ سے بچاؤ، میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔ یعنی اگر تمہارے پاس اعمال کا ذخیرہ نہ ہوگا تو میں کچھ کام نہ آؤں گا اور اس کی نفی نہیں کہ اعمال کے ہوتے ہوئے بھی میں باعثِ ترقئ درجات نہ ہوں گا یا شفاعت نہ کروں گا۔ بزرگوں کے تعلقِ نسبتی کا باعثِ ترقئ درجات ہونا خود منصوص ہے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

