ناقدین صحابہ رضی اﷲ عنہم افتراقِ اُمت کا سبب ہیں
کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی نمایاں ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم معیارِ حق و باطل ہیں تو ان کی مخالفت ہی سے نیا فرقہ بنے گا۔ موافقت سے کوئی نیا فرقہ وجود میں نہیں آسکتا۔ بلکہ وہی قدیم ناجی فرقہ برقرار رہتا ہے جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے واسطے سے اپنا روحانی سلسلہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملائے ہوئے ہے۔ کیونکہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ہی فرقہ تھا جو ناجی تھا اور وہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی جماعت تھی جو برحق بھی تھی اور معیارِ حق بھی۔
بعد میں جتنے فرقے بنے وہ ان کی مخالف راہ چل کر ہی بنے۔اور اسی لئے وہ ناحق قرار پائے کہ معیار حق سے الگ ہوگئے۔ پس جو لوگ بلا استثناء سارے صحابہ رضی اﷲ عنہم کی عظمت و عقیدت کے ساتھ پیروی کرتے ہیں اور ان پر زبانِ طعن و تنقید  کھولنا جائز نہیں سمجھتے وہ یقینا فرقہ نہیں بلکہ اصل جماعت ہیں۔
جن کے عقیدۂ وعمل کا سراسند کے ساتھ قرنِ اوّل کی پاکباز جماعت سے ملا ہوا ہے اور وہی اس جماعت کی سنتوں پر عقیدت و عظمت سے جمے ہوئے ہونے کے سبب صحیح معنوں میں اہل سنت والجماعت کہلانے کے مستحق ہیں۔
البتہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا خلاف کرنے والے اور ان پر جرح و تنقید سے نہ رکنے والے حتیٰ کہ اسے اصول قرار دینے والے درحقیقت بِلا جڑ کی نئی نئی شاخیں دین میں نکال کر اور نئے نئے خوشنماروپ کے عنوانوں سے دین کی تعبیریں کر کے اسے صَد رُخ بنا دینے والے اُمت میں افتراق و انتشار پھیلا رہے ہیں اور اُمت کو دین کے نام پر ضعیف و ناتواں بناتے جا رہے ہیں تو یہی لوگ فی الحقیقت فرقہ ہیں ’’جماعت نہیں‘‘ گو اپنے نام کے ساتھ جماعت کا لفظ پکار پکار کر شامل کر لیں۔
فَاوُلٰئِکَ الَّذِیْنَ… سَمَّاھُمُ اللّٰہُ
بہرحال اس حدیث مذکورہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو معیارِ حق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنایا اور وہ آپ کے منشاء کے مطابق معیارِ حق ثابت ہوئے۔ جن پر آج تک اُمتِ مرحومہ اپنے کھرے اور کھوٹے کو پہچانتی رہی ہے۔ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی لئے ان پر کلی اعتماد فرما کر ان کے طریقے کو اپنا طریقہ اور اپنے طریقہ کو ان کا طریقہ فرمایا اور پوری اُمت کیلئے انہیں حجت قرار دیا۔ جس سے قیامت تک اُمت کے حق و باطل کا فیصلہ انہیں کے علم و عمل کے معیار سے ہوتا رہے گا۔
