مکمل میزان اور متوازن ترازو
کچھ عرصہ ہوا بعض منتسبیندارالعلوم کا ایک خط دربارہطلب سرٹیفکیٹ احقر کے نام دفتر دارالعلوم میں موصول ہوا۔ جس میں ضمناً مودودی مکتب فکر اور خود اپنے مودودی ہونے کی نوعیت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا گیا تھا۔ یہ اصلاح طلب نوعیت دیکھ کر حضرت شیخ مولانا مدنی نے بنظر اصلاح انہیں ایک شفقت نامہ تحریر فرمایا جس میں مودودی مکتب خیال کی بعض بنیادی دفعات پر کلام فرماتے ہوئے ان کے اصلاحِ خیال کی توجہ فرمائی ہے۔ حضرت شیخ مدنی رحمہ اﷲ کا یہ ارشاد نامہ سلسلہ عقائد و افکار کیلئے ایک مکمل میزان اور متوازن ترازو کی حیثیت رکھتا ہے جس میں موجودہ زمانے کے حدود سے گذرے ہوئے افکار و خیالات کو عموماً اور مودودی نقطۂ نظر کے مزعومات و معتقدات کو خصوصاً تول کر ان کے حق و باطل کا فیصلہ بآسانی کیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت ممدوح رحمہ اﷲ کے اس والانامہ کا موضوع مودودی لٹریچر کا کوئی فروعی یا جزوی مسئلہ نہیں ہے جسے مودودی صاحب کی شخصی رائے یا ان کے اجتہاد و قیاس کا ثمرہ کہہ کر جماعت کے سرے سے بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔
جیسا کہ اس قسم کے مواقع پر عموماً ایسا ہی کیا جاتا ہے بلکہ ایک اصولی مسئلہ ہے اور وہ بھی دستور جماعت کا بنیادی اصول موضوعہ جو جماعت اور امیر سب کیلئے یکساں حجت اور معیارِ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پس اگر پوری جماعت اس دستور کو جو بنام دستورِ اسلامی شائع شدہ ہے ، تسلیم کرتی ہے (اور ضرور تسلیم کرتی ہے جب کہ جماعت کا وجود اور اس کی تشکیل ہی اس دستور سے ہوئی ہے) تو بلاشبہ دستور کی یہ دفعہ
رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی انسان کو معیارِ حق نہ بنائے ،کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے۔ کسی کی ’’ذہنی غلامی‘‘ میں مبتلا نہ ہو۔
ساری جماعت کا ایک مسلمہ عقیدہ اور بنیادی اصول ثابت ہوئی۔ اس لئے حضرت شیخ رحمہ اﷲ کے مکتوب گرامی میں اس بنیادی عقیدہ کا تجزیہ کر کے اس پر جو شرعی گرفتیں کی گئی ہیں وہ یقینا پوری جماعت کے ایک ایک فرد پر حجت ہیں اور اس لئے بحیثیت مجموعی جماعت کو گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عقائد کا معاملہ دنیوی نہیں اخروی ہے جو زیادہ توجہ کا محتاج ہے۔
دفعہ مذکورہ پر حضرت شیخ رحمہ اﷲ نے کتاب و سنت سے جو روشنی ڈالی ہے۔ اس کے سامنے آنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس دفعہ کے آنے سے پہلے تنقیح کر دوں تاکہ ان حقائق کا جو اس مکتوبِ گرامی کا موضوع ہے سمجھنا آسان ہو جائے۔ اس دفعہ میں مودودی صاحب نے غیر رسول کو معیارِ حق بنانے اور تنقید سے بالاتر سمجھنے سے روکا ہے۔ مگر یہ ممانعت جب ہی درست ہوسکتی ہے کہ شرعاً کوئی غیر رسول معیارِ حق و باطل نہ بن سکے اور تنقید سے بالاتر نہ ہو۔ اگر شرعی طور پر کوئی معیار ہو اور بن سکتا ہو تو اسے معیارِ حق مان لینا اور تنقید سے بالاتر سمجھنا کوئی جرم نہیں ہوسکتا۔
کوئی تنقید سے بالاتر نہیں ہوسکتا …… پھر بھی اگر کسی نے از خود کسی کو معیارِ حق بنا لیا اور تنقید سے بالاتر سمجھا تو وہ شرعی مجرم اور ایک شرعی گناہ کا مرتکب ہوگا۔
اس لئے ہمارا کلام مودودی صاحب کے اس نظریہ پر ہوگا کہ غیر رسول معیارِ حق نہیں بن سکتا اور تنقید سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔اگر اس دفعہ نمبر۶کو اس کے ہمہ گیر عموم کے ساتھ اس کے عام الفاظ میں تھوڑی دیر کیلئے تسلیم کر لیا جائے کہ:۔
رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی معیارِ حق نہیں کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں اور کوئی بھی اس کا مستحق نہیں کہ اس کی ذہنی غلامی کی جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ خود رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کسی کو معیارِ حق بنا دیں یا اس کے معیارِ حق ہونے کی شہادت دیں یا معیارِ حق ہونے کا ضابطہ بتا دیں کہ اس کی رو سے معیارِ حق ہونے کی تعیین کر لی جائے تو کیا وہ پھر بھی معیارِ حق نہ بن سکے گا؟ اگر بن سکے گا تو یہ اصول غلط نکلا کہ ’’رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی معیارِ حق نہیں ہوسکتا۔ اگر رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے باوجود بھی ان کے سوا کوئی معیار حق نہ ہوا تو خود رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا معیارِ حق ہونا معاذاﷲ باطل ٹھہر جاتا ہے جب کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول خلاف حق ہوگیا۔ العیاذ باﷲ۔ دونوں صورتوں میں دستور جماعت کی دفعہ نمبر۶باطل ہو جاتی ہے۔ ایک صورت میں اس کا منفی پہلو باطل ٹھہرتا ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی معیارِ حق نہیں۔ اور دوسری صورت میں اس کا مثبت پہلو باطل ہو جاتا ہے کہ صرف رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم ہی معیار حق ہیں۔ اس ضابطہ سے نکلنے کی آسان صورت اس کے سوا دوسری نہیں کہ ہم رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی ارشاد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق معیارِ حق اور ناقابل تنقید تسلیم کر لیں۔ کیونکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم بذاتہ معیارِ حق ہیں اور غیر رسول باارشادِ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم معیارِ حق ہیں۔
