مکاتب و مدارس کی تنخواہ لینا کیا ذلت کی بات ہے؟
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ بادشاہ کو جو خزانہ سے تنخواہ ملتی ہے وہ محض اس لئے کہ وہ رعایا کے کام میں محبوس ہے کیونکہ بادشاہ وہ ہے جس کو ساری قوم حاکم بناتی ہے اور اس کو بیت المال کے خزانہ سے تنخواہ دیتی ہے۔ اب دیکھو کہ وہ خزانہ کس چیز کا نام ہے؟ میں اس کی حقیقت بتلاتا ہوں۔ ساری قوم سے جو چندہ جمع کیا جاتا ہے کہ ایک پائی زید کی، ایک پائی عمرو کی، اور ایک پائی بکر کی جس کو کوٹھری میں جمع کیا جاتا ہے، اس کا نام خزانہ ہے حقیقت اس کی وہی چندہ ہے۔ وہ بھی قومی چندہ ہے، اسی سے بادشاہ کو تنخواہ ملتی ہے، صرف خزانہ لفظ سے اس کی عزت بڑھ گئی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خزانہ شاہی ہے مگر حقیقت اس کی وہی قومی چندہ ہے۔ پس یہی حقیقت اس چندہ کی ہے جس سے مولویوں کو تنخواہ یا نذر ملتی ہے مگر مولویوں کے حق میں چندہ سے تنخواہ ملنے کو لوگ ذلت سمجھتے ہیں اور بادشاہ کے لئے ذلت نہیں سمجھی جاتی ۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ بادشاہ کو ایک لاکھ ملتی ہے اس لئے ذلت نہیں خیال کی جاتی اور مولوی بیچاروں کو تھوڑی مقدار ملتی ہے اس لئے اس کو ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور الزام رکھتے ہیں کہ مولوی خیرات کے ٹکڑے کھاتے ہیں مگر بغور دیکھئے تو حقیقت دونوں جگہ ایک ہی ہے اور جب حقیقت ایک ٹھہری تو جس نے چندہ میں سے ایک پیسہ لیا اس کی کم ذلت ہونی چاہئے اور جس نے زیادہ لیا اس کی زیادہ ذلت ہونی چاہئے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

