موعظۃ حسنہ کی تشریح اور نصیحت کرنے والوں کی دو قسمیں
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ موعظۃ حسنہ کی حقیقت یہ ہے کہ نصیحت کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو ضابطہ کے ساتھ نصیحت کرنے والا ، وہ تو اپنے ضابطہ کی خانہ پری کر دیتا ہے۔ دوسرا وہ ناصح جس کو مخاطب پر شفقت بھی ہے۔ مثلاً ایک تو منادی کا حکم سنانا ہے اور ایک باپ کا نصیحت کرنا ہے، دونوں میں بڑا فرق ہے۔ منادی کا حکم تو ضابطہ کا ہے ، صرف حکم کا پہنچانا اس کا فرض منصبی ہے، اب تم مانو یا نہ مانو اس کو اس سے کوئی بحث نہیں ۔ اور باپ صرف سنانے پر قناعت نہیں کرتا بلکہ اس کی شفقت اس بات کی مقتضی ہوتی ہے کہ کسی صورت سے اس کو منوالوں، اس لیے وہ ایسی صورت اختیار کرتا ہے کہ بیٹا مان ہی لے تو دیکھئے دونوں میں کتنا بڑا فرق ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کوئی شفیق نہیں ۔ پھر حضور ﷺ جیسا کوئی خیر خواہ نہیں تو محض شفقت ہی کے مقتضی سے اولاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ثانیاً آپ کی امت کو فرمایا ہے کہ دعوت میں صرف حکمت یعنی دلائل ( اور محض حکم پہنچانے دینے ) پر اکتفا نہ کرو بلکہ ساتھ ساتھ موعظۃ حسنہ بھی کرتے رہو۔ موعظۃ حسنہ سے ایسے اثر انداز مضامین مراد ہیں جس سے مخاطب میں نرمی پیدا ہو ، دل پگھل جائے اور اس کا مصداق ترغیب و ترہیب ہے یعنی جنت کے درجات کی ترغیب اور جہنم کے خطرات سے ترہیب کرنا۔ غرض اصل مقصود تو احکام کا سنانا ہے خواہ عقائد ہوں یا احکام، باقی مخاطب کو متاثر کرنے کے لیے ترغیب و ترہیب کا بھی ایک درجہ ہے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

