مودودی مذہب پر ایک نظر
میں پوچھتا ہوں کہ سر سید احمد خان کی تحریک اصلاح اسلام‘ عبداللہ چکڑالوی کی تحریک قرآن‘ غلام احمد قادیانی کی تحریک تجدید اسلام‘ غلام احمد پرویز کی تحریک طلوع اسلام‘ ڈاکٹر فضل الرحمن کی تحریک تجدد اسلام اور سوشلسٹوں کی تحریک ترقی پسند اسلام کی مخالفت علماء نے کیوں کی؟
اس کے جواب میں تم یہی کہو گے کہ ان لوگوں نے اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق اسلام کا ایک مصنوعی خاکہ اپنے ذہن میں مرتب کرکے اسے تو معیار قرار دیا… اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کی جو چیز اس مصنوعی خاکہ میں فٹ ہوسکی اسے لے لیا …اور جو چیز اس کے خلاف نظر آئی …اسے یا تو ہنسی مذاق میں اڑا دیا …تاویل کے تیشے سے تراش کر اس کے مفہوم ومعنی کو غارت کردیا… گویا ان کا ذہن وفکر عقل وشعور اور دل ودماغ اسلام کے تابع نہیں …بلکہ اسلام کار دوقبول ان کے ذہنی خاکہ کے تابع ہے اور علماء کا فرض تھا کہ ان کے مصنوعی ’’طلسم اسلام‘‘ کوتوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے حقیقی اسلام کی جو چودہ سو سال سے سینوں اور سفینوں میں محفوظ چلا آتا ہے امت کو دعوت دیتے اور ان نئے مفکرین اسلام کے فتنہ سے لوگوں کو آگاہ کرتے۔
تم جانتے ہوکہ علماء امت نے ہر قیمت پر یہ فریضہ ادا کیا۔ انہیں گالیاں دی گئیں‘ ان پر فقرے چست کئے گئے۔ ان کا مذاق اڑایا گیا‘ ان پر طعن وتشنیع کے نشتر چلائے گئے‘ مگر علماء امت کو تو اپنا فرض ادا کرنا تھا اور انہوں نے بہر حال اسے ادا کیا۔ اور جب تک جان میں جان اور منہ میں زبان ہے تب تک علماء امت سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ دن کو دن اور رات کو رات کہنے کے جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
اب سنو! اسی طرح کا ایک مصنوعی خاکہ جناب مودودی صاحب نے اپنی ذہانت وطباعی سے اختراع کیا‘ اسی کو’’اسلامی تحریک‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا۔ اسی کی بنیاد پر اسلامی جماعت تشکیل کی اور آج ان کی ’’جماعت اسلامی‘‘ کے بڑے چھوٹوں پر اسی مصنوعی خاکہ کی چھاپ ہے‘ خدانخواستہ میرا یہ مطلب نہیں کہ جو حکم مذکورہ بالا لوگوں کا ہے وہی جناب مودودی پر بھی لگا رہا ہوں‘ نہیں! بلکہ درجات ومراتب کا فرق ہے ظلمات بعضھا فوق بعض تشبیہ سے مقصد صرف اتنا ہے کہ حقیقی اسلام کو سمجھنے سے یہ سب قاصر رہے اور اپنے فہمیدہ اسلام کا الگ ناک نقش مرتب کرنے میں سب شریک ہیں‘ یہ الگ امر ہے کہ ان میں سے بعض کا مرتبہ نقشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام سے بالکل ہی مختلف ہو اوربعض کا اس قدر مختلف نہ ہو مگر اس میں کیا شک ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی عقل وفہم کے زور سے ’’اسلام‘‘ کا جو خاکہ سمجھا اسی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اسی کو مدارٹھہرایا اور اسی کی قوم کو دعوت دی۔
عربی کی مثل ہے ’’لکل ساقطۃ لاقطۃ‘‘ یعنی ہر گری پڑی کو اٹھانے والا کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا ہے۔ ذہنی مشابہت اورقلبی تشابہ کی بنا پر ان میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ افراد مل ہی گئے۔ یہ تمہارے سوال کا مختصر سا جواب ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس اجمال سے تمہاری تشفی نہیں ہوگی
