مودودی صاحب کا حق تنقید اور اس کے مہلک اثرات
افسوس ہے کہ جناب مودودی صاحب نے بھی اپنی اسلامی تحریک کی بنیاد اسی نظریہ پر اٹھائی ہے۔ ہم جب خارجیوں کے حالات پڑھتے تھے تو ہمیں ان کی جرأت پر تعجب ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مقابلہ میں دین فہمی کا دعویٰ کررہے ہیں جس نے آفتاب اسلام کو اپنی آنکھوں سے طلوع ہوتے دیکھا جو ۲۳ سالہ دور نبوت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رفیق ومعتمد علیہ رہا۔ جو نزول وحی کے ایک ایک واقعہ کا عینی شاہد تھا جس نے اپنی زندگی بچپن سے کہولت تک اسلام پر نثار کردی۔ ان لوگوں کی عقل کو آخر کیا ہوگیا تھا۔ کہ وہ اس کی دین فہمی پر تنقید کرتے تھے مگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے آج مودودی صاحب کی تنقیدوں نے (جو انہوں نے حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہ کبارؓ پر کی ہیں) خارجیوں کے متعلق ہمارا سارا تعجب دور کردیا مودودی صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلامی نظام کوقائم نہیں رکھ سکتے تھے نہ ان کے بعد کسی کو اس کی توفیق ہوئی۔ اب جناب مودودی صاحب کی تحریک اسلامی اسلامی نظام برپا کرے گی۔ ان ھی الاخارجیۃ جدیدۃ حضرت عثمانؓ سے خدا کے فرشتے حیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے۔
’’کیا میں ایسے شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں‘‘ ( مسلم، مشکوۃ )
مگر مودودی صاحب ان سے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے بلکہ ان پر بے لاگ تنقید کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمانؓ کی بے پناہ قربانیوں سے متاثر ہوکر فرماتے ہیں:’’عثمان اس کے بعد جو کچھ بھی کریں ان پر الزام نہیں‘ عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کریں ان پر الزام نہیں۔
مگر مودودی صاحب ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے کو سرمایہ فخرو مباہات سمجھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو وصیت فرماتے ہیں۔
میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘ اللہ سے ڈرو‘ ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنالیا‘ پس جس نے ان سے محبت کی پس میری محبت کی بنا پر ان سے محبت کی‘ اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ان سے بغض رکھا۔
لیکن مودودی صاحب ان کی تنقید کو چھلنی میں چھاننا ضروری سمجھتے ہیں‘ ہر کس وناکس کو ان پر تنقید کا حق دیتے ہیں‘ ان کی عیب چینی کرکے امت کو ان سے نفرت اور بغض رکھنے کی تلقین کرتے ہیں کہ لوگ ان کی ذہنی غلامی سے دست بردار ہوجائیں۔
یہ جدید رنگ میں اسی خارجیت کا احیاء ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ابھری تھی‘ ولعن اٰخرھذہ الامۃ اولھا (اور امت کے پچھلے لوگ پہلوں پر لعن طعن کریں گے)۔ (حدیث نبو ی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
