مقام صحابیت

مقام صحابیت

آفتابِ نبوت کی تاثیر و تربیت اور تعلیم و تمرین سے اُمت کے استفادہ اور منور ہونے کے متفاوت درجات و مراتب کھل جاتے ہیں جن کا معیار آفتاب سے قُرب اور بُعد ہے یعنی جو اس سے قریب تر ہے وہ اتنا ہی نورانی تر اور متاثر تر ہے اور جتنا آفتاب سے دور ہے اتناہی اس کے فیض سے کم مستفید ہے۔
مثلاً طلوعِ آفتاب کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اور سب سے پہلے آفتاب کے آثار سے متاثر ہوتی ہے وہ فضا ہے۔ وہ چونکہ خلقۃً اپنی ذات سے شفاف ہے اور ادھر آفتاب کے سامنے بلاواسطہ حاضر ہے۔ اس لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس کے نور و حرارت کا اثر لیتی ہے۔ وہ اس درجہ منور ہوتی ہے کہ باوجود اس کے چمک اُٹھنے کے خود اس کی چمک آنکھوں کو نظر نہیں آتی بلکہ آفتاب ہی کی دھوپ اور شعاعیں نظر پڑتی ہیں۔ اگر فضا میں نگاہ اُٹھائی جائے تو فضا کا جو حصہ بھی سامنے آئے گا اس میں آفتاب ہی دکھائی دے گا۔ خود فضا کی ہستی نظر نہ پڑے گی۔ گویا وہ اس کے نور میں اس درجہ مستغرق اور فنا ہو جاتی ہے کہ اس کا اپنا تنّور کسی کی آنکھ میں نہیں آتا بلکہ آفتاب اس میں سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا بلاواسطہ دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ فضا اپنی بے حد وسعت کے ساتھ بیچ میں حائل ہے۔
ٹھیک یہی صورت روحانی آفتاب سے استفادہ کی بھی ہے کہ اس کے عالمگیر آثار سے متاثر تو سب ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہوتا ہے جو بلا واسطہ اس سے قریب ہو کر نور لیتا ہے اور وہ طبقہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا طبقہ ہے جو فضا کی مانند ہے کہ زمین سے بالاتر ہے اور فلک شمس یعنی آسمان نبوت سے فروتر ہے۔ وہ فضا کی طرح خلقی طور پر خود شفاف ہے جو محض اس کے نور ہی کو دکھا دینے کی نہیں بلکہ عین آفتاب کو دکھلانے کی کامل استعداد رکھتا ہے۔
جیسا کہ احادیث میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے نبیوں کے صحابہ میں میرے صحابہ منتخب کر لئے گئے۔ یا جیسے عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے دل شفاف تھے ، ان کا علم گہرا تھا ، ان میں تکلفات نہ تھے ، انہیں اقامت دین کیلئے پوری اُمت میں سے چن لیا تھا۔ ان کا نقش قدم واجب الاتباع ہے وغیرہ۔ جس سے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی کمالِ قابلیت کھلتی ہے جو انہیں انوار نبوت کو جذب کرنے کیلئے عطا ہوئی تھی۔ پس وہ فطری شفافی اور کمالِ قرب کے لحاظ سے بمنزلہ فضا کے ہوئے جو شفاف ہے اور ساری دنیا کی نسبت سے آفتاب سے قریب تر بھی ہے کہ بلاواسطہ نورِ آفتاب جذب کرتی ہے۔
پس انہوں نے ان شفاف سینوں سے اس درجہ آفتاب نبوت کا نور و اثر قبول کیا کہ فضا کی طرح سرتاپا نور بن گئے اور جیسا کہ فضا آفتاب سے متصل اور ملحق ہو کر اس درجہ منور ہو جاتی ہے کہ وہ خود نظر نہیں آتی۔ یعنی وہ خود اپنے کو نہیں دکھلاتی بلکہ صرف آفتاب اور اس کی شعاعوں اور چمک دمک ہی کو نمایاں کرتی ہے۔ ایسے ہی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اپنی فطری قابلیتوں کی بنا پر اس درجہ پاک قلوب ، عمیق العلم ، قلیل التکلف اور بے غل و غش بنا دیئے گئے تھے۔ گویا ان میں خود ان کی کوئی ذاتی خصوصیت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ صرف سنن نور کے مجسم نمونے بن گئے تھے۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

مسئلے کی خاصیت جھگڑا نہیں

مسئلے کی خاصیت جھگڑا نہیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اگر اختلاف حجت سے ہو تو وہ دین کا ایک پہلو ہو گا وہ اختلاف تو ہو گا مگر جھگڑا نہ ہو گا کیونکہ اس میں حجت موجود ہے۔ یہ جھگڑے اصل میں ہم اپنی جذبات سے کرتے ہیں اور مسئلوں کو...

read more

صحابہ رضی اللہ عنہم معیار حق

صحابہ رضی اللہ عنہم معیار حق اس تحریر کو فقیہ الامت عبداللہ بن مسعودؓ کے ارشاد پر ختم کرتا ہوں تاکہ ان کے ارشاد سے مودودی صاحب کے فرامین کا معیار حق تمہیں معلوم ہوسکے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جس کو کسی کی اقتدا کرنی ہو تو ان حضرات کی...

read more

مودودی صاحب کا حق تنقید اور اس کے مہلک اثرات

مودودی صاحب کا حق تنقید اور اس کے مہلک اثرات افسوس ہے کہ جناب مودودی صاحب نے بھی اپنی اسلامی تحریک کی بنیاد اسی نظریہ پر اٹھائی ہے۔ ہم جب خارجیوں کے حالات پڑھتے تھے تو ہمیں ان کی جرأت پر تعجب ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مقابلہ میں دین فہمی کا دعویٰ کررہے ہیں جس...

read more