معیار ۔۔۔۔قابل تنقید نہیں ہوتا
جب رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صحابۂ رسول رضی اﷲ عنہم پوری اُمت کے حق و باطل کے پرکھنے کا معیار ثابت ہوں تو کیا اُمت کو یہ حق پہنچے گا کہ وہ ان پر تنقید کرے اور گرفتیں کر کر کے ان کی خطائیں پکڑنے لگے؟ یا یہ حق خود ان کا ہوگا کہ اُمت کے خطاء و صواب کا فیصلہ کریں؟ کون نہیں جانتا کہ تنقید کا حق معیار کو ہوتا ہے۔ جو پرکھنے والا ہے ، نہ کہ محتاج معیار کو جو پرکھوانے والا ہے۔
آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو اپنے خطاء و صواب کو کسی معیار پر جانچنے اور اپنا فیصلہ کرانے چلے ہوں اور وہ چلتے چلتے راستہ میں خود ہی معیار بن جائیں اور اپنے اوپر حکم لگوانے کی بجائے معیار پر حکم لگانے کھڑے ہو جائیں؟
اس سے واضح ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم معارِ حق و باطل کی وجہ سے تنقید سے بالاتر ہیں۔ ایسے ہی آپ کے صحابہ رضی اﷲ عنہم بھی جبکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی حکم میں ساتھ ملا کر معیارِ حق و باطل قرار دیا ہے ، تنقید سے بالاتر ہیں۔ ورنہ کسی کو معیارِ حق مان کر اس پر نکتہ چینی کرنا یعنی خلافِ حق ہونے کا اس کی طرف ابہام کرنا یا اپنے خلافِ حق ہونے کا طعنہ دینا اسے معیار مان کر بھی معیار نہ ماننا ہے جو صریح اجتماع ضدین ہے اس لئے حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم اگر اُمت کے فرقوں کے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہیں اور حسب بالا ضرور ہیں۔
تو وہ یقینا ان فرقوں کی تنقید سے بالاتر بھی ضرور ہیں۔ ورنہ ان میں معیار ہونے کی شان قائم نہ رہے گی۔ جس کا قائم رہنا بنص حدیث ضروری ہے۔
