مشترکہ کارنامہ کو بڑے کی طرف منسوب کرنا

مشترکہ کارنامہ کو بڑے کی طرف منسوب کرنا

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں:۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ جب قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے تو تلاوت کے دوران ہی قرآن کریم کی آیتوں میں تدبر بھی کیا کرتے تھے کبھی کبھی ہم لوگوں میں سے کوئی یا حضرت کے خدام میں سے کوئی موجود ہوتا تو جو بات تلاوت کے دوران ذہن میں آتی اس کے بارے میں اس کے سامنے ارشاد بھی فرمایا کرتے تھے۔۔۔۔ ایک روز حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ قرآن کریم کی تلاوت فرمارہے تھے میں قریب بیٹھا ہوا تھا جب اس آیت پر پہنچے ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُ‘‘ تو تلاوت روک کر مجھ سے فرمایا کہ دیکھو! قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک عجیب اسلوب اختیار فرمایا ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ یوں بھی فرماسکتے تھے ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ وَاِسْمَاعِیْلُ وَالْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ‘‘ (البقرہ ۱۲۷) یعنی اس وقت یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل دونوں بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان نہیں فرمایا بلکہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لے کر جملہ مکمل کردیا کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اور اسماعیل علیہ السلام بھی اسماعیل علیہ السلام کا آخر میں علیحدہ ذکر فرمایا۔۔۔۔ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اس عمل میں برابر کے شریک تھے ۔۔۔۔ پتھر اُٹھا کر لارہے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دے رہے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان پتھروں سے بیت اللہ کی تعمیر فرمارہے تھے ۔
لیکن اس کے باوجود قرآن کریم نے اس تعمیر کو براہ راست حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب فرمایا۔۔۔۔ پھر والد صاحب نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ اگر کوئی بڑا اور چھوٹا دونوں مل کر ایک کام انجام دے رہے ہوں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کو بڑے کی طرف منسوب کیا جائے اور اس کے ساتھ چھوٹے کا ذکر یوں کیا جائے کہ چھوٹا بھی اس کے ساتھ موجود تھا ۔۔۔۔ نہ یہ کہ چھوٹا اور بڑے دونوں کو ہم مرتبہ قرار دے کر دونوں کی طرف اس کام کو برابر منسوب کردیا جائے۔۔۔۔
اس بات کو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور واقعہ کے ذریعے سمجھایا ۔۔۔۔ فرمایا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہ تھا کہ عشاء کے بعد زیادہ کسی کام میں مشغول نہیں ہوتے تھے‘ آپ فرماتے تھے کہ عشاء کے بعد قصے کہانیاں کہنا ۔۔۔۔ اور زیادہ فضول گوئی میں مشغول رہنا اچھی بات نہیں ہے تاکہ صبح کی نماز پر اثر نہ پڑے لیکن ساتھ ہی فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسلمانوں کے معاملوں میں مشورہ فرمایا کرتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا ۔۔۔۔
دیکھئے جب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا تو یوں نہیں کہا کہ مجھ سے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
بلکہ فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کرتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا یہ ہے چھوٹے کا ادب کہ جب چھوٹا کسی بڑے کے ساتھ کوئی کام کررہا ہو تو وہ کام اپنی طرف منسوب نہ کرے بلکہ بڑے کی طرف منسوب کرے کہ بڑے نے یہ کام کیا اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔
لہٰذا قرآن کریم نے بھی وہی اسلوب اختیار کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں بلند کررہے تھے اور اسماعیل علیہ السلام بھی ان کے ساتھ شامل تھے ۔۔۔۔ یہاں تعمیر بیت اللہ کی اصل نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی گئی اور اسماعیل علیہ السلام کو ان کے ساتھ شامل کیا گیا۔۔۔۔ (اصلاحی خطبات جلد۴ ص ۱۶۲)

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more