مسجد کا مستقل امام سب سے زیادہ حقدار ہے (61)۔
اکثر مساجد میں یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ امام صاحب اپنے کسی استاذ کو نماز پڑھانے کے لئے مصلیٰ پر کھڑا کردیتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بزرگ تشریف لے آئیں یا کوئی بھی مشہور دینی ہستی مسجد میں تشریف لائیں تو اُنکو نماز پڑھانے کے لئے مصلیٰ پر جگہ دے دی جاتی ہے۔ اب یہ چیز ایک طرحسے تو بالکل ٹھیک ہے کہ جو شخص زیادہ بڑا بزرگ ہو اُسکو موقع دینا چاہئے ۔ مگر اسمیں کچھ خلل بھی ہوجاتے ہیں جنکی وجہ سے لکھا ہے کہ جتنا بھی بڑا آدمی آجائے نماز بہرصورت مستقل امام کو ہی پڑھانی چاہئے۔
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مستقل امام محلہ کی نبض سے واقف ہوتا ہے۔ مسجدیں اپنے اردگرد ماحول کی وجہ سے ضروریات کو تبدیل کرتی ہیں مثلاً کاروباری مراکز کے درمیان جو مسجد ہوگی، محلہ میں جو مسجد ہوگی اور جو بازار کے عین درمیان میں مسجد ہوگی۔ سب کا الگ الگ ماحول اور فضا ہوگی۔ امام صاحب کیونکہ اردگرد کے ماحول سے واقف ہوتے ہیں تو اُنکی امات میں لوگ زیادہ عافیت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ نمازی بھی اپنے موجودہ مستقل امام کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اُنکو معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب پورے وقت پر جماعتکھڑی کردیتے ہیں اور نماز اتنی دیر میں پڑھا دیتے ہیں اور رکوع و سجود اتنی مقدار کے ہوتے ہیں۔ جبکہ باہر سے آنے والے بزرگ بعض اوقات جلدی پڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نمازی رہ جاتے ہیں۔ یا یہ ہوسکتا ہے کہ نمازی جلدی کے عادی ہوں اور بزرگ جناب تکلفات میں پڑجائیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ میرے ساتھ ہوا کہ جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا وہاں بازار کے لوگ مغرب کی نماز میں بہت جلدی میں آتے تھے۔ کیونکہ وہ نماز باجماعت پڑھ کر دوکانیں بند کرکے فوراً گھروں کے لئے نکل جاتے تھے۔ ایک مرتبہ میرے ایک بہت ہی پیارے دوست قاری صاحب تشریف لائے تو میں نے اُنکو مصلیٰ پر جگہ دی۔ اُنہوں نے اپنے بھرپور انداز میں مغرب کی نماز بیس منٹ میں پڑھائی۔ انتہائی متانت کے ساتھ پہلی رکعت میں سورۃ القمر کی آخری آیتیں پڑھائی اور سورۃ الرحمن کے پہلے رکوع تک اپنی قراءت مکمل کی۔ پھر دوسری رکعت بھی اسی طرح لمبی اور رکوع و سجود بھی خوب اطمینان سے۔ قاری صاحب نے بہت اچھے طریقے پرنماز پڑھائی مگر محلہ کے مزاج کے بالکل برعکس تھی۔ اور اسمیں غلطی میری ہی تھی۔ کیونکہ جو امامت میرا حق تھا وہ میں نے بلاوجہ تکلف میں دوسرے کے سپرد کردیا۔
اسلئے ائمہ کرام سے گزارش کرتا ہوں کہ نمازیوں کے مزاج کو ، مسجد کے ماحول کو اور نماز کے سکون کو ذہن میں رکھتے ہوئے کبھی بھی کسی اجنبی کو مصلیٰ پر جگہ نہ دیں۔ اگر آپ مسجد کے مستقل امام ہیں تو آپ سب بزرگوں سے اور سب ہستیوں سے زیادہ حقدار ہیں کہ امامت آپکی ہی ہونی چاہئے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

