مسجد کا امام۔۔۔ ایک محترم اور معزز شخص ہونا چاہئے! (139)۔
قریب تیرہ سال سے وہ مسجد میں امامت کررہے تھےاور اب ایک اثر ورسوخ پیدا ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کام کرنا آسان ہوگیا تھا تو انہوں نے عمرہ کے ویزے لگوانے کا کام شروع کردیا۔ اگرچہ یہ ایک ایسا کام تھا جو نمازوں کے علاوہ فارغ اوقات میں ہی ہوتا تھا مگر پھر بھی انتظامیہ کو تکلیف شروع ہوئی اور بالآخر انہوں نے تیرہ سال پرانے اس امام صاحب کو جواب دے دیا۔
یہ الگ بات ہے کہ امام صاحب کا کاروبار بھی چلنے لگااور وہ مستغنی ہوگئے۔ لیکن یہ بات انتظامیہ کے لئے مناسب نہیںتھی۔ ہمارے ہاں ایک عام رواج یہ بن چکا ہے کہ مسجد کا امام اُسکو بنایا جائے جو کسی کام کا نہ ہو۔ بس حافظ قرآن ہواور نماز پڑھنا یا پڑھانا جانتاہو۔ سوائے چند مساجد کے سب میں یہی حال ہے کہ انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ امام کے نام پر ایک ایسا لڑکا مل جائے جوکوئی کام، کاروبار یا ملازمت نہ کرتا ہو بلکہ سارا دن وہ مسجد کے کام سنبھال سکے۔ اگر اُس نے کوئی کام کرنے کی کوشش کی تو مسجد والے اُسکو جواب دے دیںگے۔
امامت کے نام پر مقرر ہونے والے صاحب کے ساتھ جو ظلم ہوتا ہے وہ میرا آنکھوں دیکھا کچھ ایسا بھی ہے کہ امام سے یہ توقع کی جارہی ہوتی ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں اذان بھی دے، مسجد کو ذمہ داری کے ساتھ کھولے، مسجد کے سارے کام خود کرے اور اپنی روٹی پانی کا بھی انتظام خود ہی (محلے والوں سے مانگ کر)کرے۔ مسجد اُسکو برائے نام پیسے تنخواہ یا خدمت کے نام پر دے گی اور انہی برائے نام پیسوں میں اُسکو چاہئے کہ اُف تک نہ کرے۔
ابھی چند دن پہلے ہی ایک مسجد میں دیکھا کہ امام صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ پہلے مسجد کھولتے، اذان دیتے اور پھر صفیں بچھاتے اور بعدہ نماز بھی پڑھاتےتھے۔ عموماًنمازیوں کی دو یا تین صفیں ہوتی تھیں۔ لیکن ایک دن اچانک ایسا ہوا کہ محلہ میں فوتگی ہوگئی تو تین چار صفوں جتنے نمازی اچانک پہنچ گئے۔ جب تکبیر کہی گئی اور امام صاحب کو معلوم ہوا کہ دو صفیں تو تکبیر سے پہلے ہی آج بھر گئی ہیں تو وہ فکر مند ہوگئے کیونکہ صفیں بچھانا بھی اُنکی ذمہ داری میں شامل تھا۔ میں پہلی صف میں کھڑا ہوا اُنکے چہرے کو متغیر ہوتے ہوئے دیکھ رہاتھا کیونکہ پوری مسجد میں انتظامیہ سمیت کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ صفیں کہاں رکھی ہوتی ہیں۔ گویاکہ امام صاحب باقاعدہ طور پر موذن، منتظم اور خادم بیک وقت تھے۔ اگر وہ صفیں بچھاتے تو بھی اعتراض اور اگر نہ بچھاتے تو بھی اعتراض۔۔۔۔۔!
مجھے اس صورتحال میں بہت ہی تشویش ہوئی کہ ہم نے اپنی مسجدوں اور نمازوں کا کیاحال کررکھا ہے؟جس امام کی تقلید ہم ہر نماز میں کرتے ہیں اگر ہماری کوشش یہ ہو کہ وہ معاشرہ کا سب سے کمتر انسان ہو تو پھر اس کمتر انسان کی اتباع کرتے ہوئے آپ بھی ویسے ہی ہوجائینگے۔ ورنہ جن علاقوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے سب سے بزرگ شخص کو امام بناتے ہیں تو وہ سب محلہ دار بااعتماد، دیندار، پرسکون اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں۔اگرچہ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر متقی پرہیزگاراور لائق احترام شخص کو امام بناؤگے تو تم بھی ویسے ہی بنو گے۔ اور اگر کمتر، کم عقل اور کم علم شخص کو امام بناؤ گے تو بھی تم ایسے ہی بن جاؤ گے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

