مسئلے کی خاصیت جھگڑا نہیں
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
۔’’اگر اختلاف حجت سے ہو تو وہ دین کا ایک پہلو ہو گا وہ اختلاف تو ہو گا مگر جھگڑا نہ ہو گا کیونکہ اس میں حجت موجود ہے۔ یہ جھگڑے اصل میں ہم اپنی جذبات سے کرتے ہیں اور مسئلوں کو آڑ بنا لیتے ہیں۔ مسئلے کی خاصیت لڑنا نہیں ہے اگر مسئلوں کی خاصیت لڑنا ہوتا تو پہلے تو صحابہ کرام میں لاٹھی چلتی کہ کوئی رفع یدین کر رہا ہے اور کوئی نہیں کر رہا ہے۔ کوئی آمین بالجہر کر رہا ہے اور کوئی آمین بالسر کر رہا ہے کوئی فاتحہ کو امام کے پیچھے واجب قرار دے رہا ہے اور کوئی ناجائز قرار دے رہا ہے تو اگر مسئلے کی خاصیت لڑنا ہوتا تو سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں لاٹھی چلتی پھر اس کے بعد ائمہ مجتہدین میں ڈنڈا چلتا‘ جن میں اختلاف چلتا ان میں خوب لڑائی ہوتی مگر سارے ائمہ باہم متحد تھے اس لئے کہ وہ اختلاف فروعی ہے اور بنیادیں سب کی ایک ہی ہیں اس لئے قلوب میں سب ایک دوسرے کی عظمت لئے ہوئے ہیں۔‘‘۔
۔’’یہ مسائل صرف آڑ ہیں ورنہ حقیقی لڑائی تو نفسانی جذبات کی وجہ سے پیش آتی ہے۔ لڑ لڑ کر مسلمانوں نے حکومتیں برباد کیں اپنی اپنی جائیدادیں تباہ کر دیں اپنی بلڈنگیں برباد کر دیں جب یہ دنیا چلی گئی تو رہ گیا دین اور لڑنا ضروری تھا اس سے ہٹ نہیں سکتے تھے توکہا کہ اب دین کو آڑ بنائو اب جائیدادیں نہیں تو مسئلوں پر لڑو فروعات پر لڑو۔ یہ صرف نفسانی جھگڑے ہیں۔ اگر کوئی حجت ہاتھ میں ہے تو اس میں کوئی جھگڑا نہیں۔‘‘ (ماخوذ از خطبات حکیم الاسلام)
