.مرتد کی سزا قتل کیوں رکھی گئی ہے؟ (170)
یہ بات درست ہے کہ اسلام نے بہت سارے معاملات میں آزادی دے رکھی ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ آزادی صرف خیر وتعمیر کے لئے ہوتی ہے۔ جو آزادی شر کو پھیلانے اور نقصان و تباہی اور فساد کا ذریعہ بنے تو اسلام اُس پر سختی کا حکم دیتا ہے تاکہ معاشرہ میں خرابیاں پیدا نہ ہوں۔
اسی طرح ایک عمل ایسا ہے جو اسلام کی دی ہوئی آزادی کے خلاف ہے ۔ وہ ہے اسلام سے نکل جانا (ارتداد یعنی ردہ اختیار کرنا)یہ عمل اُس آزادی کے خلاف ہےجو اسلام نے دی ہیں۔یعنی اسلام نے دین حق کو قبول کرنے کے بعد اس سے پھرنے سے منع کردیا ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے۔
اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مفہوم کچھ یوں ہے: “کسی مسلمان کی جان صرف تین صورتوں میں حلال ہے، ان میں سے ایک وہ جو دین اسلام کو چھوڑنے والا اور جماعت سے الگ ہونے والا ہے۔”
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
جو اپنا دین بدلے، اسے قتل کرو۔
یہاں پر کچھ باتیں سمجھنے کی ہیں کہ مرتد کا قتل ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں ہوتا اور یہ دہشت گردی بھی نہیں ہے بلکہ مرتد کو اسلام پر باقی رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ انکار کرے تو اسے قتل کرنے کے حکم میں بھی بہت ساری حکمتیں ہیں:
پہلی حکمت یہ ہے کہ اگر یہ شخص مرتد ہونے کے بعد بھی مسلمانوں میں رہتا ہے تواسے مرتد چھوڑ دینے سے دین اسلام میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور خیر امت اور امت کی جماعت کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔
دوسری حکمت: مرتد کا قتل اس لیے جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ خاص قسم کا کفر ہے ۔ایک کافر وہ ہے جو شروع سے کافر ہے لیکن یہ دین اسلام کو چھوڑ کر کافر بنا ہے تو اس سے مسلمانوں کی اجتماعیت و ریاست کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اگر اسے قتل نہ کیا جائے تو دین میں نئے داخل ہونے والے لوگ بھی واپس جانے لگیں گے۔ اسکا قتل دین اسلام کی حفاظت کے لیے ہے۔
تیسری حکمت: اسلام پانچ بنیادی ضروریات کی حفاظت کرتا ہے: دین، جان، عزت، عقل اور مال۔ ان میں سب سے اہم دین ہے۔ اگر کسی شخص کی جان، عزت، عقل یا مال پر حملہ کرنا جرم ہے۔ تو دینِ اسلام پر حملہ( یعنی ارتداد ) بھی بڑا اور سنگین جرم ہے۔کیونکہ مرتد شخص نے دین کی توہین کی اور لاکھوں  لوگوں کے دین پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
چوتھی حکمت: اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے دین کو رد کر دیا ہو، سوائے دو قسم کے لوگوں کے: وہ جو دین میں منافقت کے ساتھ داخل ہوئے، جیسے کچھ یہودیوں نے کیا تھا تاکہ مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں جو دین کو سچائی کے ساتھ نہیں سمجھ سکے اور شک میں پڑ گئے۔تو ایسے لوگ جنہوں نے دین کو منافقت کے ساتھ قبول کیا تھا اور پھر اب چھوڑنا چاہ رہے ہیں تو ایسے ہی منافقوں سے حفاظت کے لئے اسلام نے ارتداد پر قتل کی سزا رکھی ہے ۔
پانچویں حکمت:سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کو اسلام قبول کرنے سے پہلےمکمل آزادانہ فیصلہ کرنے کا حق تھا چاہے وہ ایمان لائے یا کفر کرے۔ لیکن اگر وہ اسلام میں داخل ہو جائے تو اسے خلوص سے اس کی پیروی کرتے رہنا چاہئے۔
مختصر یہ کہ اسلام سے انحراف عقیدہ سے خروج ہے، جماعت سے الگ ہونا، امت کو کمزور کرنا، دشمنوں کی تعداد بڑھانا ہے اورمسلمانوں کے راز فاش کرناہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے باغی کی سزا اکثرممالک میں قتل ہوتی ہےحالانکہ بغاوت بھی ایک ذاتی فعل قرار دیا جا سکتا ہےلیکن اس سے معاشرہ میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اسکی سزا قتل ہوتی ہے۔
آخر میںایک اہم بات یاد رکھیں!!!
مرتدکا ارتداد تبھی ثابت ہوگاجب دو گواہ اس کی گواہی دیں۔اور یہ دو گواہ لوگوں میں اچھائی کے ساتھ مشہور ہوں۔
یادوسری صورت کہ وہ مرتد شخص خود اقرار کرے
پھر اگر ارتداد ثابت ہو جائے تو اسے اسلام میں واپس آنے کی دعوت دی جائے گی جس کا ایک مکمل طریقہ کار ہے۔پھر بھی اگر وہ انکار کرے تو بھی ایک بات اور یاد رکھیں کہ اسے قتل کرنا ہر عام شخص کا نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمانوں کے حاکم کا حق ہے۔صرف اور صرف حاکم کاحق ہے۔
(ماخوذ از کتاب الطریق الی الاسلام)
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

