مذمتِ دنیا کا مطلب اور موقع محل
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت رابعہ بصریہ کی حکایت ہے کہ ان کی خدمت میں چند آدمی دنیا کی مذمت کر رہے تھے۔ فرمایا کہ اٹھ جاؤ کہ تم کو دنیا کی محبت ہے۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ حدیثوں میں تو دنیا کی مذمت آئی ہے تو جواب یہ ہے کہ وہاں ضرورت ہے اور اس مجلس میں سب تارکانِ دنیا تھے اس لیے ضرورت نہ تھی۔ پس یہ مذمت ناشی تھی نفس سے کہ در پردہ دعویٰ تھا اپنے کمال کا کہ ہم ایسے مرغوبِ عام کو مبغوض سمجھتے ہیں اور کسی شے کے مبغوض سمجھنے پر دعوی و فخر کرنا موقوف ہے اس شے کے باوقعت سمجھنے پر اور یہی معنی ہیں کہ تم کو اس سے محبت ہے کیونکہ وقعت ہوتی ہے کسی خوبی سے اور خوبی کا قائل ہونا مدح ہے اور مدح مضر تھی تو دیکھئے دنیا کی مذمت غیبت نہیں بلکہ ایک درجہ میں عبادت ہے لیکن چونکہ اس کی اس وقت ضرورت نہ تھی اس لیے فضول اور لایعنی تھی۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

