مخالف سے برتائو میں عارفین کا طریقہ
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مولانا محمد علی صاحب مونگیری رحمہ اللہ حضرت شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے ۔۔۔۔ شروع میں کسی نیم مجذوب سے بھی استفادہ کیا تھا ان کا ایک ملفوظ مجھے یاد رہ گیا ۔۔۔۔ فرمایا کہ :’’اگر کوئی تمہیںستائے تو تم نہ انتقام لو اور نہ بالکل صبر کرو ‘‘۔۔۔۔
مطلب یہ تھا کہ مکمل صبر کرنے سے بعض اوقات ستانے والے پر منجانب اللہ کوئی عذاب آ جاتا ہے اس لئے اس پر نظر شفقت کر کے کچھ معمولی سا عمل انتقامی کرلو ۔۔۔۔
حضرت مولانا دیو بندی (شیخ الہندؒ) نے حدیث لدود کی تشریح اسی اصول کی بناء پر فرمائی ہے لدوداس دواء کو کہتے ہیں جو خاص طریقہ سے مریض کے حلق میں ڈالی جاتی ہے۔۔۔۔ واقعہ حدیث کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئے ۔۔۔۔ صحابہ کرام میں باہم مشورہ ہوا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لدود کیا جائے۔۔۔۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔۔۔۔
بعد میں اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غشی ہوگئی۔۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منع فرمانا ایک طبعی امر ہے کہ مریض کو دواء سے کراہت ہوا کرتی ہے کوئی واجب التعمیل حکم نہیں ہے۔۔۔۔
اس لئے غشی کی حالت میں لدود کردیا۔۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہوا تو پوچھا کہ کس نے مجھے لدود کیا تھا اور فرمایا کہ جس جس نے لدود میں شرکت کی ہے ان سب کو لدود کیا جائے۔۔۔۔ چنانچہ ایسا کردیا گیا۔۔۔۔
اس واقعہ میں بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخالفت کرنے والوں سے اپنا انتقام لے لیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عام عادت کسی سے اپنے نفس کا انتقام لینے کی نہ تھی۔۔۔۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس وقت غالباً انتقام لینا اس مصلحت سے تھا کہ یہ لوگ جن سے یہ مخالفانہ عمل سرز د ہوگیا ہے۔۔۔۔ دنیا آخرت کے کسی بڑے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں۔۔۔۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ راستہ پر تشریف لے جارہے تھے کہ ایک مرید ان کے ساتھ تھا۔۔۔۔ ایک کنویں پر گزر ہوا جہاں لوگ پانی بھر رہے تھے ان میں ایک بڑھیا عورت بھی تھی اس لئے ان بزرگوں کو دیکھ کر کچھ ناشائستہ الفاظ برائی کے کہے۔۔۔۔ ان بزرگ نے مرید سے کہا کہ اس کو مارو، مرید حیرت میں رہا کہ یہ بزرگ کسی سے انتقام نہیں لیتے اور اس وقت ایک عورت کو مارنے کے لیے فرما رہے ہیں شاید ان کی بات کو سمجھا نہیں ۔۔۔۔ اس میں کچھ توقف ہوا تو یہ بڑھیا وہیں گر کر مر گئی ۔۔۔۔ ان بزرگ نے مرید سے کہا کہ ظالم تونے اس کا خون کیا جب اس نے وہ کلمات کہے تو میں نے دیکھا کہ اللہ کاقہر اس کی طرف متوجہ ہوا اس کو اس قہر سے بچانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ میں کچھ انتقام لے لوں اس لئے مارنے کو کہا تھا تم نے تاخیر کر دی جس کی وجہ سے عذاب نے اس کو پکڑ لیا۔۔۔۔ (مجالس حکیم الامت)