محبت بھری نصیحت
یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ الحمدللہ آپ میں سے ایک ایک فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قلب میں محبت کے دریا موجزن ہیں۔۔ آپ کی خیر خواہی کی خاطر‘ آپ کی محبت کی خاطر‘ آپ کے تحفظ کی خاطر‘ میں آپ سے یہ درخواست کررہا ہوں کہ اس دو رکے اندر اپنے آپ کو کسی رخ پر چلانے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لو کہ جس رخ پر تم جا رہے ہو‘ تمہارے اکابر اس کو درست سمجھتے ہیں یا نہیں؟
اگر درست نہیں سمجھتے تو چاہے تمہاری عقل کے خلاف ہو‘ تم اسے اختیار نہ کرو‘ ورنہ نہ جانے ہلاکت کے کس غار میں جا کر گرو گے۔۔
اگر تمہیں اپنے استاذوں پر بھروسہ نہیں جس سے تم نے قرآن پڑھا‘ جن سے تم نے حدیث پڑھی‘ جن سے تم نے سارا دین سیکھا‘ اگر ان کے طرزِ فکر پر ان کے مزاج و مذاق پر تمہیں اعتماد نہیں ہے‘ تمہیں بھروسہ نہیں ہے‘ پھر ان کے پاس تم پڑھنے کیوں آئے ہو؟ ان کے ساتھ اپنا دامن کیوں وابستہ کیا؟
پھر اگر تمہیں اپنی خود رائی سے اپنا راستہ اختیار کرنا ہے تو پھر اپنا دامن ان سے وابستہ کرنے کو چھوڑ دو! ہزار دروازے کھلے پڑے ہیں‘ لیکن یہ دین کوئی ایسا فلسفہ نہیں ہے ‘ کوئی نظر یہ ایسا نہیں ہے کہ آدمی کوئی کتاب پڑھ لے‘ چاہے پڑھنے والا اس دین کو صحیح سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو‘ یہاں یہ دین یہ چاہتا ہے کہ جس سے تم علم حاصل کر رہے ہو پہلے اس پر اپنا بھروسہ اپنا اعتماد قائم کرو‘ اگر اعتماد ہے تو دین اس سے حاصل کرو۔۔ اگر اعتماد نہیں ہے تو پھر اس کو چھوڑ دو۔۔ جہاں اعتماد ہو وہاں جا کر علم حاصل کرو۔۔ ’’فانظر وا عمن تاخذون دینکم‘‘یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔۔ جس سے دین حاصل کرنا ہے‘ اس کو پہلے جانچو‘ پر کھ لو‘ سوچو کہ میں اسی سے دین حاصل کر رہا ہوں‘ اسی کی دین کی تشریح پر اعتمادکروں گا‘ اسی کے دین کے فہم پر اعتماد کروں گا۔۔
اسی کے طرز فکر پر‘ مزاج و مذاق پر اعتماد کروں گا۔۔ تب تمہیں دین کا فائدہ حاصل ہوگا‘ علم کا فائدہ حاصل ہوگا ‘ورنہ نہیں ہوگا‘ بھٹکتے پھرو گے‘ لیکن اگر اعتماد ہے تو پھر خود رائی پر چلنے کے بجائے‘ محض جذباتی اور دلکش نعروں کے پیچھے چلنے کے بجائے‘ تمہیں یہ کرنا ہوگا کہ اپنے جن اساتذہ سے تم نے قرآن پڑھا ہے‘ جن سے تم نے حدیث پڑھی ہے‘ جن سے تم نے فقہ پڑھا ہے‘ جن سے تم نے دین سیکھا ہے‘ انہی سے تمہیں رہنمائی حاصل کرنی ہوگی اور اگر اس کے علاوہ کہیں جائو گے‘ دوسرے راستے کو اختیار کرو گے تو پھر تمہاے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ کون تمہیں بہا لے جائے گا۔۔
اس لیے آپ سے بڑی درمندی کے ساتھ‘ بڑی دلسوزی کے ساتھ یہ درخواست کرتا ہوں کہ اس فتنوں کے دور میں اپنے آپ کو اکابر کے سائے میں رکھو۔۔ انہی کی رہنمائی میں چلو۔۔ خُود رائی سے پرہیز کرو۔۔
