محبتیں بانٹنے کا فن ….اللہ والوں سے سیکھو! (162)۔
محبتیں بانٹنے کا فن تو کوئی اللہ والوں سے ہی سیکھے۔ایسی محبت اور شفقت سے بات کرتے ہیں کہ ہر شخص گرویدہ ہوجائے ۔
جامعہ خیر المدارس کے مہتمم آیۃ الخیر میرے استاذ محترم حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کے ساتھ ملاقات کے دو ایسے واقعات ہیں جو بہت ہی یادگار ہیں ۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب میرا نکاح ہونے لگا تو استاذ ہونے کی وجہ سے میرے دل میں خیال آیا کہ کاش حضرت قاری صاحب بھی میرے نکاح میں شرکت فرماتے تو بڑی برکت کا باعث ہوتا ۔
میں نے والد صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا تو اُنہوں نے مجھے سمجھایا کہ وہ بہت بڑے بزرگ ہیں اور ان پر بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ اُنکو تکلیف دینا مناسب نہیں ۔ میں نے جواباً عرض کردیا کہ آپ ایک مرتبہ فون پر اُن سے رابطہ ضرور کریں پھر جو ہوگا وہ مجھے منظور ہوگا ۔
تو والد صاحب نے فونکیا اور اس طرح سے بات شروع فرمائی کہ میرا بیٹا آپ کا شاگرد ہے اور آج اُسکا نکاح ہے ۔ ابھی مغرب کے بعد نکاح کی تقریب ہوگی اور یہ چاہتا ہے کہ آپ کو بھی اس تقریب کی دعوت ہو۔ تو آپ اسکے لئے دعا فرمادیں تاکہ اس صورت میں آپکی شمولیت ہوجائے ۔
حضرت قاری صاحب نےدریافت فرمایا کہ نکاح کی تقریب کہاں پر ہے ؟ جب اُنکو جگہ بتائی گئی تو آگے سے قاری صاحب کا جواب سن کر مجھ سمیت سب حیران رہ گئے ۔ کیونکہ قاری صاحب فرمارہے تھے کہ میں اسی علاقہ میں ہی اپنے کسی کام سے آیا ہوا تھا اور وہ کام اب ختم ہوچکا ہے ۔ اس لئے میں اب خود بھی شریک ہوسکتا ہوں ۔
مزید شفقت دیکھئے کہ قاری صاحب نے فرمایا کہ فلاں جگہ پر ہم لوگ انتظار کررہے ہیں ۔ آپ کسی ساتھی کو بھیج دیں وہ رہنما بن کر ہمیں راستہ دکھائے گا اور ہم اس تقریب میں شریک ہوجائیں گے ۔
اور اسکے بعد ایک دوسرا واقعہ جو ابھی چند دن پہلے ہوا کہ میں حضرت قاری صاحب دامت فیوضہم کے لئے ایک کتاب (حکیم الامت ۔۔۔ نقوش و تاثرات)ہدیہ کے ارادہ سے لے کر گیا ۔
میری جیب میں قلم بھی تھا اور میں نے یہ ارادہ کررکھا تھا کہ مدرسہ میں پہنچ کر جب دفتر جانے لگوں گا تو کتاب کے پہلے صفحے پر اپنا نام تحریر کردوں گا تاکہ میرے لئے دعاؤں کا سبب بن جائے ۔
مگر اتفاق دیکھئے کہ مدرسے میں داخل ہوتے ہی معلوم ہوا کہ قاری صاحب اپنے دفتر میں نہیں بلکہ باہر باغیچہ کے پاس تشریف فرما ہیں ۔ اب میں اُنکے سامنے لکھنے سے تو رہا ۔ بس جا کر ہدیہ پیش کردیا ۔
قاری صاحب نے اکابر کے طرز پر عمل کرتے ہوئے کتاب کونہایت خوشدلی سے قبول فرمایا اورچند صفحات کو بغور پڑھابھی ۔ یہ عمل میں نے اور بھی کئی بزرگوںمیں دیکھا ہے کہ ہدیہ لانے والے کی کتاب، رسالہ یا کتابچہ کیکچھ سطریں بغور پڑھتے ہیں۔ یہ شکریہ اور قدردانی کا محبت بھرا خاص انداز ہوتا ہے۔
لیکن قاری صاحب دامت برکاتہم نے کتاب کو مطالعہ کرنے کے بعد مجھ سے دریافت فرمایا:۔
کہ یہ کتاب ہدیہ ہے ؟
میں نے عرض کیا : جی بالکل! ہدیہ کی نیت سے لے کر آیا ہوں ۔ آپ قبول فرما لیں ۔
تو قاری صاحب نے مسکرا کر فرمایا : اگر یہ ہدیہ ہے تو اسکے شروع میں آپکا نام لکھا ہونا چاہئے ۔
یہ بات سن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ گویا میرے دل کی بات حضرت نے ارشاد فرمادی ۔ پھر اپنی جیب سے قلم نکالا اور مجھ سے میرا مکمل نام پوچھا۔ اور پہلے صفحے پر خود ہی تحریر فرمایا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی طرف سے فلاں تاریخ کو ہدیہ ملا ہے ۔
سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ ایسے اکابر کی شان کو سلامت رکھے اور انکا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ ہم سب اصاغر کو ان سے خوب فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

