لمحہ فکریہ
حکیم الاسلام اور علامہ اقبالؒ کے حکیمانہ جواب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کی تفسیر کرنا کوئی بازیچہ اطفال نہیں کہ ہر کس و ناکس خود کو اس عظیم کام کا اہل سمجھے۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنے خطبات میں قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر لکھنے کیلئے ایسی دس شرائط لکھی ہیں جو اس میں پائی جانی ضروری ہیں اور اس زمانہ میں ان شرائط پر پوری اترنے والی شخصیات کمیاب ہی ہیں، ان شرائط و آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر اگر کوئی قرآن کی خدمت کرنا چاہے تو ان شاء اللہ مخلوق خدا اس کے ترجمہ و تفسیر سے ہدایت پائے گی، بصورت دیگر اس عظیم الشان ٹھوس علمی کام کیلئے اگر غیر مستند قسم کے لوگ میدان میں اتریں گے جیسا کہ اب اتر رہے ہیں تو خود بھی حیراں و سرگرداں رہیں گے اور قوم کو بھی صراط مستقیم سے بھٹکا دیں گے اور ایسے لوگوں کی تفسیر بقول ان کے تفسیر تو ہوگی لیکن اس کا انجام وہی ہوگا جیسے کسی مدرسہ کے شیخ الحدیث صاحب کو پکڑ کر آپریشن تھیٹر میں لے جائیں کہ ہمارے مریض کے دل کا آپریشن کردیں، ظاہری بات ہے کہ یہ حساس قسم کا کام ماہر سرجن کا ہے کسی شیخ الحدیث کا نہیں اسی طرح قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر لکھنا بھی ماہر علماء میں سے بھی ان حضرات کا ہے جن میں اس کام کی متعلقہ شرائط پوری پائی جائیں، یہی وجہ ہے کہ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے تفسیر معارف القرآن کے بارے میں فرمایا کہ میں نے اپنی تفسیر میں کچھ نہیں لکھا بلکہ اپنے شیخ حکیم الامتؒ کی تفسیر بیان القرآن کی تسہیل کی ہے اسی طرح دیگر اکابر اپنی پوری اہلیت کے باوجود لرزاں و ترساں رہے۔
اس عظیم الشان علمی کام میں جب پروفیسر، ڈاکٹر، وکیل، دانشور اور اسکالر قسم کے لوگ خود کو دخیل کریں گے اور ترجمہ و تفسیر لکھنے بیٹھیں گے تو پھر یہی کہا جائیگا کہ:۔
روئے زمین پر سب سے مظلوم …… قرآن مجید ہے۔
