لاحاصل اختلاف

لاحاصل اختلاف

مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کا اس سلسلہ میں ایک عبرت انگیز واقعہ لکھا ہے فرماتے ہیں:۔
قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا اور سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اس میں شرکت فرمایاکرتے تھے۔۔۔۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا، ایک صبح نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا: حضرت کیسے مزاج ہیں؟
کہا: ہاں ٹھیک ہی ہے، میاں مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کر دی!۔
میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں، دین کی اشاعت میں گزری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں، مشاہیر ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں، آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام میں لگی۔۔۔۔فرمایا: میں تمہیں صحیح کہتا ہوں، عمر ضائع کر دی۔۔۔۔
میں نے عرض کیا، حضرت بات کیا ہے؟
فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کدو کاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کر دیں، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔۔۔۔اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں، ان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے، وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا، وہ تو ہمارے محتاج نہیں۔۔۔۔
اور امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل اور دوسرے مسالک کے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں، کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو صواب محتمل الخطاء (درست مسلک جس میں خطا کا احتمال موجود ہے) ثابت کر دیں اور دوسرے کے مسلک کو خطا محتمل الصواب (غلط مسلک جس کے حق ہونے کا احتمال موجود ہے) کہیں، اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں، ان تمام بحثوں، تدقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں۔۔۔۔
پھر فرمایا: ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطاء، اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہو سکتا، دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح یا یہ کہ یہ صحیح ہے، لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطاء ہو اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو، دنیا میں تو یہ ہے ہی قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترک رفع یدین حق تھا، آمین بالجہر حق تھی یا بالسر حق تھی، برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہو گا۔۔۔۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ یہ تھے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کو رسوا کرے گا نہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کو، نہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کو، نہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کو، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے، جن کے ساتھ اپنی مخلوق کے بہت بڑے حصے کو لگا دیا ہے، جنہوں نے ہدایت کو پھیلایا ہے، جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں، اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا کہ وہاں میدان حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحیح کہا تھا یا امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے غلط کہا تھا یا اس کے برعکس، یہ نہیں ہو گا۔۔۔۔
تو جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا نہ برزخ میں اور نہ محشر میں، اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی، اپنی قوت صرف کر دی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی، مجمع علیہ اور سبھی کے مابین جو مسائل متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیاء کرام علیہم السلام لے کر آئے تھے۔
جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا اور وہ منکرات جن کو مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی، آج یہ دعوت تو نہیں دی جا رہی، یہ ضروریات دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں اور اپنے و اغیاران کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا وہ پھیل رہے ہیں، گمراہی پھیل رہی ہے، الحاد آ رہا ہے، شرک و بت پرستی چل رہی ہے، حرام و حلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فروعی بحثوں میں۔۔۔۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یوں غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ عمر ضائع کر دی۔۔۔۔آپ اگر مسلمانوں کی پستی، تنزل اور ذلت کے اسباب پر غور فرمائیں گے تو آپ کو بڑے بڑے یہی دو اسباب نظر آئیں گے۔۔۔۔ (مراد حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کا بیان ہے جو ماقبل عنوان ’’اختلاف امت اور ان کا حل‘‘ کے تحت گزر چکا ہے)۔
امت آپس میں دست و گریبان ہے، ہر شخص الگ جماعت بنانے کی فکر میں ہے، کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ان میں صدر اور سیکرٹری کے علاوہ آپ کو تیسرا شخص نہیں ملے گا، مگر نعرے ایسے انقلابی لگائے جاتے ہیں، گویا یہی ایک جماعت ہے جو بگڑی ہوئی امت میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔۔۔۔ کام سے زیادہ پروپیگنڈہ اور تشہیر کی جاتی ہے۔۔۔۔
قرآن کو چھوڑ کر امت نے لینن مارکس، مائوزے تنگ اور نہ جانے کون کون سے لادین لیڈروں کی کتابوں کو اپنا لیا ہے۔۔۔۔ اپنی معیشت، سیاست، حکومت غرضیکہ ہر چیز کے بارے میں ان ہی گمراہ کن کتابوں سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔۔۔۔
قرآن کو خوب صورت غلافوں میں لپیٹ کر طاقچوں کی زینت بنا دیا گیا ہے۔۔۔۔ قرآن کا مقصد اب صرف یہ رہ گیا ہے:۔
کہ کبھی کبھار برکت کے لیے پڑھ لیا جائے۔۔۔۔
یاکوئی مر جائے تو قرآن سے ایصالِ ثواب کر دیا جائے۔۔۔۔
یا کبھی جھگڑا ہو جائے تو قرآن کی قسم اُٹھا لی جائے۔۔۔۔
تعویذات لکھ لکھ کر بیماروں کے گلے میں ڈال دئیے جائیں۔۔۔۔
(ندائے منبر و محراب : ۱/۱۸۶تا۱۹۱)

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more