قصدِ عدم ایذا کا اہتمام
ملفوظاتِ حکیم الامت مجد دالملت حضرت مولا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
فرمایا کہ اگر قصداً کسی کو ایذا پہنچاۓ وہ بھی برا ہے اور اگر قصد تو ایذا کا نہ ہومگر ایسا فعل کرے جو سبب ہو ایذا کا یہ بھی برا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں دو عورتوں کا ذکر ہوا کہ ایک عورت ہے کہ وہ نماز روزہ تو خوب کرتی ہے یعنی فرائض کے علاوہ مگر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا *هـي فـي النـار* کہ وہ جہنم میں جائے گی ۔ اور دوسری عورت کی بابت ذکر ہوا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایک عورت ہے کہ نماز وغیرہ تو بہت نہیں پڑھتی یعنی فرائض کے علاوہ مگر پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا *هـی فی الجنۃ* کہ وہ جنت میں جائے گی. دیکھ لیجئے ایذا پہنچانا ایسا ہے ۔ اس کا اہتمام نماز روزہ سے بھی زیادہ کرنا چاہئے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جتنی چیزیں حقوق اللہ کہلاتی ہیں وہ حقیقت میں حقوقِ نفس ہی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ کیونکہ ان کے ضائع کرنے سے اپنے ہی نفس کو ضرر ہے ، خدا کا تو کوئی ضرر نہیں اور ایذا دینا کسی کو یہ حقوق غیر سے ہے اور حقوقِ غیر کا اہتمام اپنے نفس کے حقوق سے ظاہر بات ہے کہ زیادہ ہونا چاہئے۔اس لئے اس کا اہتمام روزہ و نماز سے بھی زیادہ ہونا چاہئے ، نہ اس وجہ سے کہ یہ امور ارکانِ اسلام ہیں۔ارکانِ اسلام تو نماز روزہ ہی ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یہ حقوق غیر ہیں ، ان کے اخلال سے دوسروں کے مواخذہ کا ڈر ہے جو کہ کریم نہیں ۔اس لئے ان کا اہتمام زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے ۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

