قرآن مجید کا ادب ملحوظ رکھنا ضروری ہے (211)۔

قرآن مجید کا ادب ملحوظ رکھنا ضروری ہے (211)۔

کچھ عرصہ پہلے جب قرآن مجید کے نسخے بہت کم میسر ہوتے تھے تو لوگوں کی نگاہ میں اسکی قدر و قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔ جسے یہ نعمت مل جاتی وہ سب سے پہلے اس کی حفاظت کے لیے مضبوط اضافی جلد بنواتا اور خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر کسی اونچی اور پاک جگہ پر رکھتا۔ اُس وقت ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اس کی بے حرمتی معمولی بات نہیں۔ اس لیے تلاوت کے وقت باوضو ہوکر ادب اور احترام سے بیٹھنا، آغاز میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنا اور آخر میں دعامانگ کر واپس اپنی جگہ پر رکھنا عام رواج تھا۔
پھریوں ہواکہ قرآن مجید کی طباعت اور تقسیم میں غیرمعمولی آسانی پیدا ہوگئی۔ مدارس اور ادارے سینکڑوں کی تعداد میں نسخے منگوانے لگے، ناشرین بھی بڑی تیزی سے ان کی اشاعت کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ تعداد میں نسخے شائع کرنے سے ناشر کا مالی فائدہ تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی دھندلا ہوتا جارہا ہے کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں، بلکہ کتابِ الٰہی ہے جس کے حقوق اور آداب کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی ایک بات ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر قرآن مجید کی بے شمار ایپس اور آن لائن ورژن موجود ہیں جو ایک اعتبار سے بہت مفید ہیں، لیکن اس سہولت نے ہمیں اصل حقیقی قرآن مجید کے لمس اور تعلق سے بہت دور کردیا ہے۔ بہت سے لوگ ایک طرف تلاوت آن کرکے دوسری طرف اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ بعض اوقات ویڈیوز میں قرآن کی تلاوت بیک گراؤنڈ میں لگا دی جاتی ہے اور ویڈیو کے مناظر چل رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ ہمیں تو یہ سکھایا گیا تھا کہ جب قرآن کی تلاوت ہو تو ہمہ تن گوش متوجہ ہوجاؤ اور ویڈیو میں مناظر دکھا کر قرآن مجید کی تلاوت کو بیک گراؤنڈ میں رکھ دیا جاتا ہے۔العیاذباللہ۔یہ رویہ سخت بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔اسکی مثال یوں ہی سمجھ لو کہ کوئی شخص قرآن مجید پڑھنے کے لئے اٹھائے اور ساتھ میں کوئی کاپی پینسل، موبائل یا کوئی اور چیز بھی ساتھ رکھ لے کہ قرآن بھی پڑھوں گا اور ساتھ ساتھ یہ کام بھی کروں گا۔ تو بہ امر شدید مجبوری شاید اسکی اجازت ہو ورنہ یہ بے ادبی ہوگا کیونکہ قرآن ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ جب یہ سامنے ہو تو پھر اور کوئی کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود حکم فرمایا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو سننے کا اور خاموش رہنے کا حق ادا کرو(یعنی تمہاری توجہ پوری طرح صرف تلاوت کی طرف ہونی چاہئے)۔
اس سے بھی بڑا عجیب رواج یہ آچکا ہے کہ بعض افراد صرف چند سیکنڈ کی ویڈیو بنانے کے لیے آیت کے درمیان سے ایک ٹکڑا کاٹ کر لگا دیتے ہیں۔ نہ اس کے آغاز میں اعوذ باللہ و بسم اللہ پڑھی جاتی ہے،اور بعض اوقات تو آیت مکمل بھی نہیں ہوتی۔ اس طرح  آیات کو توڑ توڑ کر پیش کرنا (اگرچہ سننے میں اچھا لگتا ہے اور اسٹیٹس لگانے میں بھی آسانی ہوتی ہے)مگر یہ سخت بے ادبی ہے۔ قرآن کی ایک آیت کو کاٹ کر بغیر بسم اللہ کے پھیلانا بالکل ایسے ہی تکلیف دہ عمل ہے جیسے کسی بابرکت بزرگ کا ایک ہاتھ کاٹ کرلوگوں کو دکھایاجائے کہ یہ فلاں بزرگ کا ہاتھ دیکھئے کتنا مبارک ہے۔بھلا یہ کہاں کی عقلمندی اور کہاں کا احترام ہے؟ہمیں اس معاملے میں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس مقدس کتاب سے نوازا ہے، وہ ہمارے لیے ذریعۂ ہدایت اور سامانِ رشد و ہدایت ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہےکہ ان چیزوں کو بے ادبی سمجھا ہی نہیں جا رہا۔
دوستو! قرآن کی آیات بیک گراؤنڈمیں لگانے کے لئے نہیں ہیں، قرآن کی آیات تیس سیکنڈ کی ویڈیو بنا کر اسٹیٹس پر لگانے کے لئے نہیں ہوتیں، قرآن کی آیات کو اپنے چینل یا وڈیو کی تشہیر کے لئے اپنی مرضی سے کانٹ چھانٹ کرکے پیش کرنا بے ادبی ہے۔ہم سب کو چاہئے کہ اسکے حقوق اور آداب کو ملحوظ رکھیں اور اسکو عام کتابوں کی طرح مجاز نہ سمجھیں کہ جو جب جیسے چاہے کرگزرے۔اللہ رب العزت ہمیں قرآن کریم کی صحیح قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more