قتل کی دھمکی اور حکیم الامت رحمہ اللہ کا رد عمل
کسی صاحب نے ایک گمنام خط حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے نام شائع کردیا جس میں آپ کو قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔۔۔۔ فتح پور کے لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر خط لکھا جس میں اس خط پر اظہار ناراضی اور حضرت سے محبت و عقیدت کا اظہار تھا آخر میں بہت سے لوگوں کے دستخط تھے ۔۔۔۔
حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا مکرمی السلام علیکم! محبت کا شکر گزار ہوں مگر خیر خواہی سے اعتدال فی المحبت کا مشورہ دیتا ہوں اور اس اعتدال کی صورت یہ ہے کہ دعا کی جاوے اور اگر بہت جوش ہو انفرادی طور پر اس کا اظہار کردیا جائے باقی دستخطوں کا اہتمام اور اس قدر تطویل مضمون غالباً یہ زیادت علی السنۃ ہے گو مغلوب المحبت معذور ہے مگر معذور سے محقق اچھا ہے۔۔۔۔ (والسلام) یہ خط لکھا ہی گیا تھا کہ ایک پولیس سب انسپکٹر آئے اور عرض کیا کہ ضلع اعظم گڑھ کے کلکٹر کی چٹھی آئی ہے وہ پوچھتے ہیں کہ قتل کی دھمکی کا جو خط آیا ہے کیا اس کے متعلق آپ کچھ چاہتے ہیں (غالباً خط ضلع اعظم گڑھ کا تھا) حضرت نے اس کے جواب میں سب انسپکٹر پولیس سے کہہ دیا کہ میں کچھ نہیں چاہتا نہ امداد نہ تفتیش۔۔۔۔ حضرت نے فرمایا کہ قتل کی دھمکی کے خط نے مجھے بڑا فائدہ پہنچایا۔۔۔۔ جس قدر لوگوں کے حقوق میرے ذمہ تھے میں نے ان سب کو ادا کر کے سبکدوشی حاصل کرلی اس سبکدوشی کا میرے باطن پر ایسا اثر ہوا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ (9ربیع الثانی 1358ھ)(مجالس حکیم الامت)
