قالین …آپکی صحت کے لئے خطرناک ہوسکتے ہیں (204)۔
میرے ایک نہایت قریبی دوست کے ہاں چند ماہ قبل بچہ پیدا ہوا۔ فطری طور پر ایسے حالات میں والدین اپنی تمام تر توجہ اور محبت کے ساتھ بچے کی صحت و صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ تاہم ایک دن اچانک بچے کو شدید نزلہ، زکام اور سانس کی تکلیف نے آن گھیرا۔ یہ صورت حال والدین کے لئے سخت تشویش کا باعث تھی۔
میرے دوست نے اپنے ایک دیرینہ اور مخلص دوست، جو ایک تجربہ کار ڈاکٹر تھے، سے رابطہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل سے پوچھ گچھ کے بعد ایک عجیب سا سوال کیا کہ کیا اس کمرے میں جہاں بچہ زیادہ وقت گزارتا ہے، قالین بچھا ہوا ہے؟
میرے دوست نے قدرے حیرانی سے تصدیق کی کہ ہاں اُن کے بیڈروم میں ایک خوبصورت قالین بچھا ہواہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ اس قالین کو کمرے سے نکال دیں ۔
انہوں نے مشورہ فوری طور پر عمل میں لایا۔ کچھ ہی دنوں میں نومولود کی طبیعت تیزی سے بہتر ہونے لگی اور بالآخر بچہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔
یہ نتیجہ دیکھ کر میرے دوست کے دل میں ایک تجسس پیدا ہوا۔ انہوں نے دوبارہ ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آخر اس عجیب و غریب مشورے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے انہیں ہدایت کی کہ اس قالین کو کسی کھلے صحن میں لے جا کر اچھی طرح جھاڑیں اور مٹی یا گردوغبار کا جائزہ لیں۔ چنانچہ میرے دوست نے یہ کام کیا تو ان پر انکشاف ہوا کہ بے شک بظاہر قالین بڑا صاف ستھرا لگ رہا تھا اور روزانہ جھاڑ پونچھ بھی ہوتی تھی، لیکن اس کے اندرونی ریشوں میں ایک خاص طرح کا باریک خاکہ جذب ہوہورہا تھا۔ انہوں نے جب کئی مرتبہ پے در پے قالین کو جھاڑا تو بے شمار باریک ذرّات جمع ہوکر بالٹی کے ایک حصے کے برابر ہوگئے۔ ظاہری طور پر یہ مٹی دکھائی دیتی تھی، لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ باریک ذرات کسی عام جھاڑویا کپڑے سے مکمل دور نہیں ہوتے۔ یہ قالین کی ساخت میں جذب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ اسی باریک خاکہ کے ذرات تھے جو بچے کے ناک اور سانس کی نالی میں جاکر انفیکشن اور شدید نزلے کا باعث بنے۔بالغ افراد پھر بھی کسی حد تک اس مائیکرو سطح کی آلودگی کے مقابلے میں مزاحمت کرلیتے ہیں لیکن نوزائیدہ بچوںمیں مدافعت اتنی نہیں ہوتی۔
اسی تناظر میں ایک اور نہایت اہم معاملہ ہماری مساجد کا ہے۔یہاں بھی عموماً موٹے، آرام دہ، بہترین کوالٹی کے قالین بچھے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں نہایت صاف ستھرے اور خوشنما لگتے ہیں مگر حقیقت میں ان کے اندر بھی وہی مائیکرو ذرات طویل عرصے تک جمع ہوسکتے ہیں۔ اکثر مساجد میں روزانہ جھاڑو سے ظاہری صفائی تو کی جاتی ہے، تاہم ویکیوم کلینر سے اندرونی باریک ریشوں کی صفائی کا اہتمام نہیں ہوتا۔
نتیجتاً کئی دن، کئی ہفتے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزرجاتا ہے اور قالین کے اندر خاکہ جذب ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب نمازی سجدے میں جھکتے ہیں تو ان کی ناک زمین سے مس کرتی ہے، یوں یہ باریک ذرّات ناک اور سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ صورتحا ل طویل عرصے تک قائم رہے تو مختلف قسم کی سانس کی تکالیف، الرجی، اور دیگر طبی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ ہم اپنی قریبی مساجد میںانتظامیہ کو توجہ دلائیں۔ اگر اُن کے پاس ویکیوم کلینر کی سہولت موجود نہیں تو ہم میں سے کوئی صاحب حیثیت فوری طور پر مسجد کو ویکیوم کلینر لے کر مسجد کو ہدیہ کردے۔ یہ ایک عظیم صدقہ جاریہ ہوگا جس سے نہ صرف نمازی محفوظ رہیں گے بلکہ مسجد کا ماحول بھی پاکیزہ اور صحت بخش ہوگا۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

