قابل اعتماد اکابر کی علامت
دینی امور سے متعلق جن شخصیات کا اتباع یا اعتماد کی بات ہورہی ہے اس سے کونسی شخصیات مراد ہیں تو اس حقیقت تک رسائی کے لئے ہم حدیث شریف سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے۔
فرمایا :’’بنی اسرائیل بہتر فرقوںمیں بٹ گئی تھی اور میری امت تہتر فرقوںمیں تقسیم ہوجائے گی۔ ایک کے سوا باقی سب ناری ہوں گے۔ ‘‘۔
صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اﷲ! ان میں کامیاب کون ہوگا۔ فرمایا ما انا علیہ واصحابی۔ جس طریقہ پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں۔ قابل اعتماد شخصیات کو اسی معیار پر جانچا اور پرکھا جائے گا کہ کون پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے اسوہ کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔
اس صفت کی حامل شخصیات قابل اعتمادبھی ہیں اور قابل اتباع بھی۔ ایسے ہی معیار کی حامل شخصیات کی ایک دوسری حدیث شریف میں یہ علامت بتائی گئی ہے ۔ حق سبحانہ و تقدس کا ارشاد ہے کہ بندہ نفل عبادتوںکے ساتھ میرے ساتھ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں حتیٰ کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ جس سے وہ کسی چیز کو پکڑتا ہے اور پائوں جس سے وہ چلتا ہے۔‘‘۔
یعنی جب بندہ کثرت عبادت سے حق تعالیٰ شانہ کا مقرب بن جاتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اسکے اعضاء کے محافظ بن جاتے ہیں اور آنکھ کان وغیرہ سب مرضی آقا کے تابع ہوجاتے ہیں (فضائل قرآن ص ۳۹)
یعنی یہ شخصیات قرب کے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں جہاں نفسانیت کا عمل دخل نہیں بلکہ للٰہیت ہی رچ بس جاتی ہے۔ایسے حضرات پر اعتمادیا اتباع کے لئے کیا مانع باقی رہ جاتا ہے؟ تو ان کی زندگی کو حدیث بالا کی روشنی میں پرکھیں گے۔
نظائر
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے ایماء پر احکام القرآن پر مامور دیگر حضرات کی طرح حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ بھی مامور تھے۔ سورۃ قصص کی آیت جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قبطی کو قتل کرنے کے بارے میں ایک علمی اشکال پیدا ہوا۔ حضرت مفتی صاحب نے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے استفسار کیا تو حضرت نے اس اشکال کا مفصل جواب عطا فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ یہ میرا خیال ہے اگر اس کا ثبوت کتاب و سنت میں یا علماء اہل حق کے کلام میں مل جائے تو اس کے حوالے سے لکھا جائے ورنہ جس سے آپ نے سنا ہے اس کے حوالے سے لکھ سکتے ہیں۔ یہاں حوالہ میں حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا اپنی ذات کو پیش کرنا اکابر پر اعتماد کی شرعی اہمیت کو ظاہر کررہا ہے۔ (مآثر حکیم الامت ص ۴۶۵)
اسی طرح احکام دعا میں حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب نوراﷲ مرقدہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ’’تراویح کی نماز میں ترویحات خمسہ اور وتر کی نماز کے درمیان بہیئت اجتماعی دعا مانگنا درست ہے یا نہیں تو حضرت مفتی صاحب نے جواب ارشاد فرمایا۔ ’’اس بارے میں کوئی خاص نص تو معلوم نہیں مگر عام طور سے علماء صلحاء میں رائج ہے اور کسی نے اس کو منع نہیں فرمایا۔ اب دیکھئے حضرت مفتی صاحب نے کسی حوالے کی بجائے علماء و صلحاء کے عمل کو بطور دلیل پیش فرمایا۔ یہی اکابر پر اعتماد کی دلیل اور شرعاً استناد کوثابت کررہا ہے۔ (احکام دعا ص ۱۷)
