فرق اسلامیہ کے حق و باطل ہونے کا معیار
اب اس حدیث میں فرق اسلامیہ کی نجات و ہلاکت اور بالفاظِ دیگران ان کے حق و باطل ہونے کا معیار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ وہ میرا اور میرے صحابہ رضی اﷲ عنہم کا طریقہ ہے۔ لیکن اس طریقہ کو شخصیتوں سے الگ کر کے تنہا کو معیار نہیں بتلایا۔ بلکہ اپنی ذات بابرکات اور اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کی ذات قدسیہ کی طرف منسوب کر کے معیار بتلایا کہ ’’ان شخصیتوں کے ضمن میں پایا جائے ورنہ بیان معیار میں اس نسبت اور نامزدگی کی ضرورت نہ تھی بلکہ مَنْ ھُمَ کے جواب میں مَآاَنَا عَلَیْہِکی سیدھی تعبیر یہ تھی کہ مَاجِئْتُ بِہٖ فرما دیا جاتا۔ یعنی معیارِ حق وہی ہے جسے میں لے کر آیا ہوں۔ یعنی شریعت ، لیکن اس شریعت کو شخصیتوں سے الگ کر کے ذکر کرنے کی بجائے شخصیتوں کے انتساب سے ذکر فرمانے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ محض کاغذ کے کالے نقوش معیار نہیں بلکہ وہ ذوات معیارِ حق ہیں جن میں یہ نقوش و حروف اعمال و احوال بن کر رچ گئے ہیں اور اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ اب کوئی بھی ان کی ذوات کو دین سے الگ کر کے اور دین کو ان کی ذوات سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھ سکتا۔جس کا حاصل یہ نکلا کہ محض لٹریچر معیارِ حق نہیں بلکہ وہ ذوات معیارِ حق ہیں۔ جو اس لٹریچر کے حقیقی ظرف بن چکے ہیں۔
بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ ط وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَo (سورۃ العنکبوت)
’’بلکہ یہ تو قرآن کی آیتیں ہیں صاف ان لوگوں کے سینوں میں جن کو ملی ہے سمجھ اور منکر نہیں ہماری باتوں سے مگر وہی جو بے انصاف ہیں۔‘‘
پھر اس طریقہ کو شخصیت کی طرف منسوب کرنے کے سلسلہ میں بظاہر مَا کے بعد اَنَاکافی تھا اور یہ فرما دینا بس کرتا تھا کہ نجات و ہلاکت کے پہچاننے کا طریقہ میری ذات ہے تاکہ معیارِ حق صرف رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ہوتی ، لیکن آپ صلی اﷲ علی وسلم نے اپنے ساتھ اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو بھی شامل فرمایا جس سے واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ فرقوں اور مختلف مکاتبِ خیال کے حق و باطل کے پرکھنے کا معیار جیسے رسول کی ذات ہے ویسے ہی صحابۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذوات بھی ہیں اور اس لئے رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی موجودگی یا عدم موجودگی میں کسی فرقہ اور کسی مکتب خیال کے افرادکو پرکھنے کیلئے یہ دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی راہ کے مطابق چل رہے ہیں۔ یا مخالف سمت میں ہیں۔ ان کی اطاعت کر رہے ہیں یا ان سے گریز پر ہیں ان کے ساتھ حسنِ ظن کا برتاؤ کر رہے ہیں یا سوئِ ظن اور بے اعتمادی کابلکہ یہی شان کسی کے معیار ہونے کی ہوتی ہے۔ جس سے صاف طور پر رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صحابۂ رسول کا معیارِ حق ہونا واضح ہو جاتا ہے اور یہ حدیث اس بارے میں نص صریح ثابت ہوتی ہے جس کا مقصد ہی یہ مدعا ثابت کرنا ہے۔
