فتویٰ نویسی میں مفتی اعظم رحمہ اللہ اور اسلام پر اعتماد
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اپنی کتاب ’’میرے والد میرے شیخ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
جن فتاویٰ میں کوئی خاص تحقیق پیش نظر ہوتی ان میں تو متعلقہ موضوع سے متعلق جتنی کتابیں میسر ہوتیں، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان سب کی مراجعت فرماتے اور بہت سی وہ کتابیں بھی دیکھتے جو اگرچہ متعلقہ موضوع پر نہ ہوتیں لیکن ان میں زیربحث مسئلے کے کسی پہلو کے ملنے کا امکان ہوتا۔۔۔ اس طرح ایک ایک مسئلے کی تحقیق پر بڑے مفصل رسالے تیار ہوگئے جن میں سے ایک بڑا حصہ تو شائع ہوچکا ہے اور باقی دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ کے رجسٹروں میں محفوظ ہیں۔۔۔
مجھ جیسے بے علم شخص کیلئے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی کارناموں اور فتویٰ کی خصوصیات پر لب کشائی کرنا چھوٹا منہ بڑی بات کا مصداق معلوم ہوتا ہے۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے افتاء کا منصب ایک ایسے زمانے میں سنبھالا جو فتویٰ کی ذمہ داری محسوس کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے انتہائی نازک، مشکل اور محنت طلب دور تھا۔۔۔ یہ ٹھیک وہ زمانہ ہے جب کہ مغرب کے سیاسی اور فکری غلبے کے زیراثر دُنیا بھر کے انداز زندگی میں انقلابی تبدیلیاں آرہی تھیں، نت نئی ایجادات کا ایک سیلاب پھوٹ رہا تھا۔۔۔ تجارت و معیشت میں نئے نئے معاملات وجود میں آرہے تھے۔۔۔ طرز معاشرت اور رہن سہن کے طریقوں میں انقلاب آرہا تھا اور ان تمام تبدیلیوں کے نتیجے میں ہر صبح ایک ایسا نیا فقہی مسئلہ لے کر نمودار ہوتی تھی جس کا صریح جواب فقہ کی قدیم کتابوں میں ملنا مشکل تھا اور فتویٰ کے کام کے لیے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دارالعلوم دیوبند کی اس مرکزی مسند کی ذمہ داری سپرد ہوئی تھی جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دُنیا اسلام میں فتویٰ کا سب سے بڑا مرجع سمجھی جاتی تھی اس لیے فقہی اعتبار سے اُٹھنے والا کوئی سوال اور اہل علم و دانش کے درمیان پیش آنے والا کوئی مباحثہ ایسا نہیں تھا جو قول فیصل یا محاکمے کے لیے وہاں نہ بھیجا جاتا ہو۔۔۔
پھر آج تو ہر مفتی کے سامنے رہنمائی کے لیے ماضی قریب کے اکابر کے لکھے ہوئے ضخیم فتاویٰ موجود ہیں لیکن جس زمانے میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ خدمت سونپی گئی ہے اس وقت ان فتاویٰ کے مجموعوں میں سے کوئی موجود نہ تھا، اس لیے جو کچھ لکھنا تھا، براہِ راست اصلی ماخذ سے مستنبط کرکے لکھنا تھا اور خود اپنی ذمہ داری پر لکھنا تھا۔۔۔ غرض ایک طرف نت نئے مسائل کا انبار تھا اور دوسری طرف ایسے ماخذ مفقود تھے جن سے عہد حاضر کے مسائل کا کوئی صریح جواب مل سکتا ہو۔۔۔
اس پر مستزاد یہ کہ اگر حکومت اسلامی ہو، مسلمان غیرملکی تسلط سے آزاد ہوں اور اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب اپنے فطری ارتقاء کی منازل طے کررہی ہو تو نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل آسان ہوتا ہے۔۔۔ مثلاً یہ کہ ایک عادل اسلامی حکومت کو شریعت نے مباحات کے دائرے میں بڑے وسیع اختیارات دیئے ہیں اور حکومت ان اختیارات کو کام میں لاکر بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے، اس کے علاوہ اگر اسلامی علوم کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہو تو ایک محقق کو حکومت کی طرف سے بہت سے وسائل فراوانی کے ساتھ میسر آجاتے ہیں۔
لیکن جس دور میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ کی ذمہ داری سنبھالی ہے وہ انگریزی استعمار کا تاریک دور تھا۔۔۔ اسلام اور مسلمانوں کے وجود و بقاء کے بارے میں حکومت کی نیت خراب تھی اور ایک مفتی کو قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ اس کا کوئی فتویٰ غلط استعمال نہ ہوسکے۔۔۔ ادھر یہ ایک فطری بات تھی کہ ایک ایسی مغربی طاقت کے زیرنگیں رہتے ہوئے جو اپنا ایک مخصوص فکری نظام رکھتی تھی اگر اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جاتا تو یقینا مسلمانوں کے اجتہادات اپنی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے اس مغربی طاقت کو مرعوبیت اور اس کی تقلید کے آئینہ دار ہوتے جس سے اسلام کی شکل و صورت ہی مسخ ہو جاتی۔۔۔
چنانچہ جن لوگوں نے اس دور میں تجدد اور اجتہاد کا پرچم اُٹھایا ان کے ’’اجتہادات‘‘ میں یہ فکری مرعوبیت ناقابل انکار طریقے پر نمایاں ہے اور شاید اقبال مرحوم نے اسی حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ:۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
لہٰذا اس وقت فتویٰ کے معاملے میں ذرا سی ڈھیل مسلمانوں کے لیے گوناگوں فتنے کھڑی کرسکتی تھی اور اسلام کی ٹھیک ٹھیک حفاظت اس کے بغیر ممکن نہ تھی کہ علماء دین کے معاملے میں نہ صرف کامل تصلب بلکہ تقلید اسلاف میں کسی قدر جمود کا مظاہرہ کریں کیونکہ اسلام کا حلیہ بگاڑنے کے لیے تجدد کی جو تحریکیں ساری دُنیائے اسلام میں سر اُٹھا رہی تھیں، ان کو اگر علماء کی طرف سے ذرا چھوٹ ملتی تو آج دین اپنی صحیح شکل و صورت میں محفوظ نہ رہتا۔۔۔
ان تمام وجوہ کی بناء پر علماء نے عین حکمت کے تقاضے سے حتی الامکان تقلید شخصی کی بالکل لفظ بہ لفظ پابندی ہی میں عافیت سمجھی اور حضرات اہل فتویٰ نے وہ اختیارات بھی کم سے کم استعمال کیے جو اجتہاد فی المسائل کے دائرے میں ایک متبحر مفتی کو حاصل ہوسکتے ہیں۔۔۔
ایسے اوقات میں ایک مفتی کا فریضہ انتہائی نازک ہو جاتا ہے۔۔۔ ایک طرف اسے مسلمانوں کی اجتماعی مصلحتوں کا بھی خیال ہوتا ہے۔۔۔ دوسری طرف یہ بات بھی مدنظر رکھنی پڑتی ہے کہ مسلمانوں پر کوئی ناقابل برداشت تنگی پیش نہ آئے اور تیسری طرف اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ اس آزاد طرز فکر کو سہارا نہ ملے جو اجتہاد کے نام پر دین کی ایک ایک چول ہلانے کی فکر میں ہے۔۔۔ ایسے دور میں خدا کا خوف رکھنے والے مفتی کو ان تینوں باتوں کی رعایت کے ساتھ ایک انتہائی باریک پل صراط پر چل کر نئے مسائل کا جواب دینا پڑتا ہے اور احقر کی ناقص سمجھ میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نازک فریضہ اللہ کی توفیق سے جس حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے وہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔۔۔
